• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

پاناما کیس کا فیصلہ کوئی ’آسمانی صحیفہ‘ نہیں: رانا ثناءاللہ

شائع September 20, 2017

لاہور: پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے چیف جسٹس آف پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ سیاسی مقاصد کے لیے سپریم کورٹ کے نام کے مبینہ استعمال کا نوٹس لیں۔

لاہور میں صحافیوں سے گفتگو میں اپوزیشن جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے دعویٰ کیا کہ این اے 120 کے ضمنی الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے سپریم کورٹ کو ایک ’سیاسی جماعت‘ کے طور پر متعارف کرانے کی اطلاعات ہیں۔

صوبائی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ووٹرز سے کہا کہ اگر وہ ووٹ ڈالتے ہوئے بیلٹ پیپر پر پی ٹی آئی کا انتخاب کرتے ہیں تو وہ سپریم کورٹ کے حق میں اپنا ووٹ ڈال رہے ہیں اور اگر وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دیتے ہیں تو وہ اپنے حق رائے دہی کو سپریم کورٹ کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔

رانا ثناء اللہ کے مطابق اخبارات میں بھی عمران خان کا بیان شائع ہوا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مارجن میں ہونے والی کمی دراصل سپریم کورٹ کی کامیابی ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: 'کم مارجن سے جیتنا مسلم لیگ کی شکست تصور ہوگی'

ان کا کہنا تھا کہ ایسے بیانات پر لوگ یہ سوال کرسکتے ہیں کہ کیا این اے 120 کے ضمنی انتخاب میں ن لیگ کے مارجن میں ہونے والی کمی میں عدلیہ کا کوئی کردار ہے۔

صوبائی وزیر قانون کے مطابق وہ نہیں مانتے کہ این اے 120 کے الیکشن میں سپریم کورٹ کا کوئی تعلق تھا لہذا بہتر ہوگا اگر رجسٹرار سپریم کورٹ اس حوالے سے یک سطری وضاحت جاری کردیتے۔

رانا ثناء اللہ نے وضاحت دی کہ ان کی جماعت نے صرف سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنا مؤقف پیش کیا جس کا انہیں پورا حق حاصل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ کا ایک معزز جج ہمیں گاڈ فادر کہہ سکتا ہے جو میرے لیے ایک گالی ہے، کل ایک اور اعلیٰ جج نے کہا کہ این اے 120 کے نتائج کا اعلان کیا جاچکا ہے اور عوام کے مینڈیٹ کا احترام کیا جانا چاہیے‘۔

مزید پڑھیں: این اے-120: کلثوم نواز کی یاسمین راشد کو شکست

وزیر قانون کے مطابق برطرف وزیراعظم نے پاناما کیس کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد فوری طور پر اس پر عمل کیا کیونکہ وہ فیصلے کا احترام کرتے تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاناما پیپرز کیس کا فیصلہ کوئی ’آسمانی صحیفہ نہیں‘ جس پر بات نہیں کی جاسکتی، ہم نے تمام تحفظات کے باوجود اس پر عمل کیا لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ہم اس پر ایمان لائیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہماری طرح سب پر اداروں کا احترام کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے‘۔

مخالفین پر کڑی تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’الزام خان، چالاک مولوی اور شیخ رشید کو اب اپنی ناکامی تسلیم کرلینی چاہیے‘۔


یہ خبر 20 ستمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024