آئل، گیس اور دیگر معدنی ذخائر کو کنٹرول کرنے کیلئے صوبے متحرک
پاکستان کے تمام صوبوں نے 18ویں ترمیم کے تحت حاصل ہونے والے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے مشترکہ اور برابری کے لحاظ سے اپنی متعلقہ سرحدوں میں موجود معدنی وسائل کو کنٹرول کرنے کی خواہش کا اظہار کردیا۔
چاروں صوبے وفاقی حکومت کی پیٹرولیم پالیسی پر نظر ثانی چاہتے ہیں جس کے بارے میں خیال کیا جاتاہے کہ یہ ایک پر سکون سرمایہ کاری ہے۔
اعلیٰ سرکاری حکام نے ڈان کو بتایا کہ ملک کے چاروں صوبے مشترکہ طور پر وفاقی حکومت کو آئین کے آرٹیکل 172(3) کو نافذ کرنے پر زور دے رہے ہیں، جبکہ ان کی خواہش ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل آئندہ اجلاس میں اس حوالے سے کوئی فیصلہ کرے۔
مزید پڑھیں: سندھ میں تیل اور گیس کے نئے ذخائر دریافت
یہ معاملہ بین الصوبائی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں اٹھایا جائے گا جس میں وفاق کے حوالے سے آئینی مراعات کی خلاف ورزی، ایل این جی پالیسی اور گیس سیکٹر اصلاحات پر صوبوں کی شکایت پر غور کیا جائے گا۔
آئل اور گیس کے ذخائر سے مالا مال صوبے سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان گذشتہ چار برس سے 2012 پیٹرولیم پالیسی کے تحت مراعات اور پیٹرولیم کی تلاش کی پیشکش نہ ملنے کی وجہ سے نا خوش ہیں۔
صوبوں کا کہنا ہے کہ آئین کے آٹیکل 172(3) میں کہا گیا ہے کہ قدرتی گیس اور آئل جس صوبے کی سرحد میں سے نکالے جائیں گے وہ اس صوبے اور وفاق کے درمیان برابری کی بنیاد پر خرچ کیے جائیں گے، تاہم یہ موجودہ عہد اور فرائض سے مشروط ہیں۔
مشترکہ مفادات کونسل کی جانب سے 2012 کی پیٹرولیم پالیسی کی منظوری کے بعد بھی اس شق کو نافذ نہیں کیا جاسکتا۔
یہ بھی پڑھیں: فاٹا میں قدرتی گیس کے بڑے ذخائر موجود
چاروں صوبوں کے نمائندوں اور وزارت پیٹرولیم کے ادارے پیٹرولیم کنسیشنز کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی پی سی) نے ایک ریگولیٹری فارم بنانے پر اتفاق کیا اور فیصلہ کیا کہ پیٹرولیم کی تلاش اور پروڈکشن لائسنز کے لیے نئے سرے سے نیلامی کی جائے۔
سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا نے باقاعدہ طور پر آئل اور گیس کی تلاش کے لیے نئے بلاکس کے معاملے پر نظر ثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ معاملہ گذشتہ پانچ برسوں سے زیر التوا ہے۔
ان صوبوں نے الزام لگایا کہ مرکز میں موجود اہم عہدیداران نے جان بوجھ کر مقامی سطح پر آئل اور گیس کی تلاش کے لیے نئے بلاکس بنانے کے معاملے کو روکا ہوا ہے تاکہ ملک میں ایل این جی درآمد کے لیے راستہ آسان بنایا جاسکے۔
مزید پڑھیں: ’سوئی گیس سے پاکستان نے ترقی کی، اب بلوچستان کا قرض ادا کریں گے‘
ان صوبوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ انہیں بھی آئل اور گیس کی ٹیسٹنگ، ہائیڈرو کاربن منصوبوں کے لیے سروے جیسے معاملات کی ذمہ داری سونپی جائے۔
تینوں صوبوں نے اپنے محکمہ توانائی کو مضبوط کرنے کے لیے وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر ڈی جی پی سی کے معیار پر مشترکہ اور برابری کی بنیاد پر آئل اور گیس کی تلاش کی تجویز پیش کی۔
صوبوں نے پاور سیکٹر کے ساتھ ساتھ گیس سیکٹر کی بے ترتیبی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ان اقدامات سے حل شدہ معاملات میں بھی مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔
صوبوں نے آئین کے آرٹیکل 154 اور 158 کی شقوں کو نافذ نہ کرنے کے حوالے سے وفاق کے خلاف خدشات کا اظہار کیا، جنہیں وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ ریاض الدین پیرزادہ کی صدارت میں کونسل کی جانب سے بھی اٹھایا جائے گا۔
صوبہ سندھ نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ صوبہ ملک کو 68 فیصد قدرتی گیس مہیا کرتا ہے اور اسے صرف صوبے کی 44 فیصد گیس فراہم کی جاتی ہے جبکہ صوبے میں گیس کی کمی کا بھی سامنا ہے۔
یہ خبر 18 ستمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی