شادی سے انکار پر لڑکی کا قتل: اہلخانہ انصاف کے منتظر
کراچی سے 170 کلو میٹر دور واقع سندھ کے ضلع جامشورو اور وزیر اعلیٰ سندھ کے آبائی شہر تعلقہ سیہون کے قریب رشتے سے انکار پر گزشتہ ہفتے قتل کی گئی نوعمر لڑکی کا خاندان تاحال انصاف کا منتظر ہے۔
سیہون کے جھانگارا گوٹھ میں رواں ماہ کے پہلے ہفتے میں 19 سالہ تانیہ خاصخیلی کو شام کے وقت اس وقت قتل کیا گیا، جب اہل خانہ کے تمام افراد گھر میں موجود تھے۔
ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے مقتولہ تانیہ خاصخیلی کے والد غلام قادر خاصخیلی کا کہنا تھا کہ مبینہ ملزم خانو نوحانی نے اپنے 2 ساتھیوں کے ہمراہ ان کے گھر پر حملہ کیا، گھر کے تمام افراد کو اسلحے کے زور پر ایک کمرے میں بند کردیا، جبکہ خانو نوحانی نے تانیہ کو اغوا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
غلام قادر خاصخیلی نے بتایا کہ خانو نوحانی، تانیہ کو ہر صورت اغوا کرکے اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا مگر ان کی بیٹی نے سخت مزاحمت کی، جس پر ملزم نے اسے مبینہ طور پر فائرنگ کرکے قتل کردیا جبکہ ملزمان موقع سے فرار ہوگئے۔
مقتولہ کے والد کا کہنا تھا کہ انہوں نے تھانہ جھانگارا میں مرکزی ملزمان خانو نوحانی اور مولا بخش نوحانی سمیت تین افراد کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرایا، لیکن انہیں تاحال گرفتار نہیں کیا جاسکا۔
دوسری جانب جھانگارا پولیس نے مرکزی ملزمان کے بجائے 4 غیر متعلقہ افراد کو حراست میں لے کر تفتیش کا آغاز کردیا ہے.
چند اخبارات میں 30 غیر متعلقہ افراد کو حراست میں لیے جانے کی خبریں بھی شائع ہوئیں۔
تاہم جھانگارا تھانے کے ایک عہدیدار نے صرف 4 افراد کو حراست میں لیے جانے کی تصدیق کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان افراد کو مرکزی ملزمان کو دباؤ میں لانے کے لیے گرفتار کیا گیا ہے۔
عہدیدار نے انکشاف کیا کہ اگرچہ تانیہ کے قاتل جرائم پیشہ افراد ہیں لیکن مقتولہ کے خاندان اور مبینہ ملزمان رشتہ دار بھی ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ قتل کے واقعے کے بعد تھانے کے ایس ایچ او بار بار تبدیل کیا جارہا ہے اور چند روز میں دو ایس ایچ اوز کو تبدیل کیا جاچکا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں سکندر سولنگی کا کہنا تھا کہ انہیں اطلاعات ملیں ہیں کہ مرکزی ملزمان علاقہ چھوڑ کر بلوچستان فرار ہوگئے ہیں۔
واقعے کے بعد اب تک کی گرفتاریوں سے متعلق تانیہ خاصخیلی کے والد کا کہنا تھا کہ انہیں پولیس نے گرفتار کیے گئے افراد سے متعلق کچھ نہیں بتایا۔
انہوں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب تک مرکزی ملزمان گرفتار نہیں ہوں گے، اس وقت ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے انہیں اور محکمے کے اعلیٰ افسران کو مطمئن کرنے کے لیے چند تبادلے کیے اور چند اہلکاروں کو معطل بھی کیا گیا، لیکن ایسے اقدامات سے ان کی بیٹی کے قاتل گرفتار نہیں ہوں گے۔
تانیہ کے قتل کو 10 سے زائد دن گزر جانے کے باوجود جہاں مقتولہ کے اہل خانہ انصاف کے منتظر ہیں، وہیں سندھ بھر میں ملزمان کی عدم گرفتاری پر مظاہرے کیے جارہے ہیں، جبکہ سوشل میڈیا پر بھی واقعے کے خلاف بھرپور مہم چلائی جارہی ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ کی مقتولہ کے گھر آمد
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور انسپیکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس اے ڈی خواجہ تانیہ خاصخیلی نے مقتولہ کے اہلخانہ سے ملاقات کے دوران انہیں ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا یقین دلایا۔
تاہم غلام قادر خاصخیلی کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں لگتا کہ وزیر اعلیٰ اور آئی جی کی یقین دہانی کے باوجود ان کی بیٹی کے قاتل گرفتار ہوں گے۔
غلام قادر خاصخیلی نے بتایا کہ انہوں نے وزیر اعلیٰ اور آئی جی سندھ سے نئے مقرر کیے گئے ایس ایچ او بکر رودنانی کو تبدیل کرنے کی درخواست کی ہے۔
علاوہ ازیں مقتولہ تانیہ کے ایک قریبی رشتہ دار نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ قتل کے مرکزی ملزمان خانو اور مولا بخش نوحانی کو جھانگارا پولیس کے ایک سینیئر اہلکار نے پیسوں کے عوض علاقے سے فرار میں مدد کی اور وہ اب علاقے میں موجود نہیں ہیں۔
تاہم پولیس نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔
تانیہ کی داستان
19 سالہ تانیہ خاصخیلی نے گزشتہ برس اچھے نمبروں سے طالبہ کے سرکاری اسکول سے میٹرک کیا اور وہ مزید تعلیم حاصل کرنے کی خوہشمند تھیں۔
تانیہ کا اسکول ان کے گھر سے ایک کلومیٹر کی دوری پر تھا، جبکہ واقعے کے مبینہ ملزمان ان کے گاؤں سے 15 سے 20 کلومیٹر دور ایک قصبے کے رہائشی ہیں جہاں تمام افراد ’نوحانی‘ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔
مقتولہ کے والد کے مطابق تانیہ نے علاقہ غیر محفوظ ہونے کے باعث مزید تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ ملتوی کردیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ مرکزی ملزمان میں سے ایک خانو نوحانی، تانیہ سے شادی کا خواہشمند تھا اور اس نے اپنے خاندان کے بڑوں کو بھیجنے کے بجائے خود ہی تانیہ کا رشتہ مانگا تھا، لیکن وہ اس رشتے کے خلاف تھے اور انہوں نے رشتے سے انکار کردیا تھا۔
تبصرے (1) بند ہیں