• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:02pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:02pm

غیرت کے نام پر قتل کی معاشرے میں کوئی جگہ نہیں

شائع September 15, 2017

'غیرت' کے نام پر قتل کی گھناؤنی تاریخ میں بھی یہ بربریت کی بدترین مثال ہے۔ دو بچوں 15 سالہ بخت تاج اور 17 سالہ غنی رحمان کو کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری میں ان کے خاندانوں نے گھر سے بھاگنے پر بجلی کے جھٹکے دے کر قتل کر دیا۔

اس سے پہلے کہ وہ شادی کرنے کے لیے کسی تک پہنچ سکتے، ان کے گھر والوں، جو مہمند قبیلے کی ایک برادری سے تعلق رکھتے ہیں، نے ان کا پتہ لگا لیا۔

قبائلی جرگے نے فیصلہ دیا کہ بچوں کو روایات کی خلاف ورزی کرنے پر قتل کر دیا جائے۔ مبینہ طور پر لڑکے اور لڑکی کے والد اور چچا نے انہیں پکڑ کر تب تک بجلی کے جھٹکے دیے جب تک کہ وہ مر نہیں گئے۔

جب ایک مخبر نے پولیس کو جرم کی اطلاع دی تو ہلاک شدگان کی بدھ کے روز قبر کشائی کی گئی؛ فارنسک تجزیے میں ان کے جسم پر تشدد اور بجلی کے جھٹکوں کے نشان پائے گئے۔

غیرت کے نام پر قتل کے ساتھ ایک مخصوص قسم کی خوفناکی جڑی ہے، پھر چاہے قتل جس بھی طرح کیا جائے۔ قتل جیسا گھناؤنا جرم، اور وہ بھی جب اپنے گھر والے یہ جرم کریں؟ اس سے بھی زیادہ صدمہ انگیز بات یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات کسی لاقانونیت سے بھرے قبائلی یا دیہی علاقے میں نہیں، بلکہ ایک بڑے، اور نسبتاً جدید شہر میں ہوتے ہیں۔

مگر یہ حیرت کی بات نہیں ہونی چاہیے۔ لوگ، خصوصی طور پر ہجرت کرنے والے افراد جو نہایت قدامت پسند معاشرے سے تعلق رکھتے ہوں، شدت کے ساتھ کوشش کرتے ہیں کہ اپنے نئے ماحول میں ڈھلنے کے بجائے اپنی ثقافتی روایات کو برقرار رکھیں۔

جیسا کہ حالیہ واقعے میں نظر آ رہا ہے، وہ انہیں غیر قانونی و غیر رسمی 'نظامِ انصاف' کو بھی برقرار رکھتے ہیں جو ان کے آبائی علاقوں میں رائج ہوتا ہے۔

اصل مسئلہ ذہنیتیں تبدیل کرنے کا ہے، جس میں 'غیرت' جیسے پسماندہ خیالات کسی شخص کی زندگی لینے یا کسی لڑکی کو ونی کر دینے کا باعث بنتے ہیں۔ لیکن پھر بھی، اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ معاشرے میں دو نسلوں کے درمیان تنازع پیدا ہو رہا ہے، اور نوجوان نسل اب میڈیا اور انٹرنیٹ کے زیرِ اثر ہو کر اپنے بڑوں کی جانب سے ان پر تھوپی گئی پسماندہ روایات سے جان چھڑانا چاہتی ہے۔

ریاست کو عملی مظاہرہ کرنا ہوگا کہ غیرت کے نام پر قتل کی معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ویسے تو اس جرم کے قابلِ صلح ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے، مگر پھر بھی اس قانون میں ترامیم نے اس کی زیادہ سے زیادہ سزا کو 25 سال قید جبکہ صلح کی صورت میں بھی کم از کم 10 سال قید کی سزا موجود ہے۔

حالیہ واقعے میں قاتلوں اور جرگے کے شرکاء کو سزا ملنی چاہیے۔ ریاست کے قانون کو قبائل کے فرسودہ رسوم و رواج پر غالب ہونا ہوگا۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 15 ستمبر 2017 کو شائع ہوا۔

اداریہ

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024