• KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm

سینیٹ میں مشرف دور میں ایٹمی پھیلاؤ کی تحقیقات کا مطالبہ

شائع August 30, 2017

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے پرویز مشرف کے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے متعلق بیان پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے مشرف دور میں پاکستان کے ایٹمی پھیلاؤ کے معاملے کی تحقیقات کرنے کامطالبہ کردیا۔

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پرویزمشرف کے بیان سے 'پرانے زخم ہرے' ہوں گے اور اس بیان سے شمالی کوریا کے ایٹمی پھیلاؤ میں پاکستانی تعاون کے بین الاقومی موقف کو تقویت ملے گی۔

انھوں نے مطالبہ کیا کہ ایٹمی پھیلاؤ کے معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیے کہ اس معاملے کا فرد واحد ہی ذمہ دار ہے کیونکہ ڈاکٹر قدیر خان ہر گز ایٹمی مواد سر پر اٹھا کر تو نہیں لے گئے ہوں گے۔

خیال رہے کہ سابق فوجی حکمران پرویز مشرف نے نجی چینل دنیا نیوز کو اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ امریکا کے دورے میں اس وقت کے صدرجارج بش کے اصرار پر سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے سابق ایجنٹ جارج ٹینیٹ سے ملے تھے۔

پرویزمشرف نے دعویٰ کیا کہ سی آئی اے کے سابق ایجنٹ نے انھیں پاکستان کے ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے پاکستان سے باہر ایٹمی پھیلاؤ کے حوالے سے فوٹوپر مشتمل ثبوت دکھائے تھے۔

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پرویز مشرف نے یہ بیان دے کر ملک کی خدمت نہیں کی بلکہ اس کے بعد ایک بین الاقوامی مطالبہ جو دب گیا تھا اب دوبارہ کھڑا ہو جائے گا اوردنیا کہے گی کہ ایٹمی پھیلاؤ کی تحقیقات کی جائیں۔

انھوں نے مشرف کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جنرل مشرف نے پینڈورا بکس کھول دیا ہے ہم کہتے تھے کہ امریکا اور بھارت کے درمیان ایٹمی معاہدہ یک طرفہ ہے اب انھیں یہ کہنے کا جواز مل گیا ہے کہ پاکستان ایٹمی پھیلاؤ میں ملوث ہے۔

چئیرمین سینیٹ رضا ربانی کا کہنا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ پرویز مشرف نے یہ بیان اس وقت کیوں دیا اور معاملے کو اس وقت کیوں دوبارہ کھولا گیا ہے جب ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک بیان بھی آیا ہے جبکہ یہ معاملہ بہت حساس ہے'۔

انھوں نے کہا کہ بدقسمتی سے اگر یہ بیان کسی سویلین صدر یا وزیر اعظم کی جانب سے آتا تو اسے چھوڑا نہیں گیا ہوتا تاہم اگر ایوان سمجھے تو اس معاملے پر سینیٹ کے پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی میں زیر غور لایا جائے گا۔

حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینیٹر سلیم ضیا کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کہتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان مجھ سے معافی مانگیں،پرویز مشرف کا یہ بیان تشویش ناک ہے۔

پی پی پی کے سینیٹر رحمٰن ملک نے کہا کہ اس معاملے پر حقائق ان کیمرہ بتانے کے لیے تیار ہوں کہ کس کی جیب میں کتنے پیسے گئے تھے۔

لاپتہ افراد کا معاملہ

قبل ازیں رضا ربانی کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے معاملے پر پارلیمنٹ اورعدلیہ ناکام ہوگئی ہے، لاپتہ افراد کا معاملہ آئین اور قانون کے خلاف ہے اور ریاست میں ریاست کے کردار کو روکنے میں ہم ناکام ہوگئے ہیں۔

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ 30 اگست کو لاپتہ افراد کے حوالے سے بین الاقومی دن کے طور پر منایا جا رہا ہے لیکن حکومت غور کرے کہ جس تیزی سے لوگ لاپتہ ہو رہے ہیں اور ان میں سے کسی کو سزا نہیں دی گئی ہے اور اس معاملے پر شہریوں اور ریاست کے درمیان خلیج مزید نہ بڑھے۔

ان کا کا کہنا تھا کہ انتہا پسند سائبر کرائم کے قانون کو اپنے بیانیے کو پھیلانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں، قانون کا جس تیزی سے منفی استعمال ہو رہا ہے وہ افسوس ناک ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad Khan Aug 30, 2017 11:57pm
تحقیقات ضرور ھونی چاہئے کیونکہ یہ ایک بہت حساس معاملہ ھے ڈاکٹر قدیر کیسے اپنی مرضی کرسکتا تھا حکومت اداروں کی مدد کے بغیر ایسا کرنا نہ ممکن تھا مشرف کا اس وقت اس بات کا ذکر چھیڑنا حیران کن ھے اگر حکومت کیلئے تحقیق مشکل ھو تو بقول انکے اپنے احتسابی عمل کے زریعے تحقیقات کریں اور حکومت کو رپورٹ پیش کریں

کارٹون

کارٹون : 28 نومبر 2024
کارٹون : 27 نومبر 2024