ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی پر دنیا کا ملا جلا ردعمل
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان، پاکستان اور جنوبی ایشیاء کے حوالے سے نئی امریکی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے افغانستان میں مزید ہزاروں امریکی فوجیوں کی تعیناتی کا عندیہ دیا اور اسلام آباد پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام دہراتے ہوئے ’ڈو مور‘ کا مطالبہ کردیا۔
امداد میں کمی کی دھمکی دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’ہم پاکستان کو اربوں ڈالر ادا کرتے ہیں مگر پھر بھی پاکستان نے اُن ہی دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے جن کے خلاف ہماری جنگ جاری ہے، ہم پاکستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہوں پر خاموش نہیں رہیں گے‘۔
دوسری جانب افغانستان میں 16 سال سے جاری جنگ کو وقت اور پیسے کا ضیاع قرار دینے کے اپنے سابقہ بیان کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان کو دی جانے والی امریکی فوجی امداد ’بلینک چیک‘ نہیں، ’ہم قوم کی دوبارہ تعمیر نہیں کررہے، ہم دہشت گردوں کا صفایا کررہے ہیں'۔
واضح رہے کہ وائٹ ہاؤس کے سینئر حکام کے مطابق امریکی صدر اپنے سیکریٹری دفاع کو افغانستان میں مزید 3900 فوجیوں کی تعیناتی کا اختیار بھی دے چکے ہیں۔
امریکی صدر کی جانب سے نئی پالیسی کے اعلان کے بعد دنیا بھر نے اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا:
چین نے پاکستان کی حمایت کردی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر میں پاکستان پر کی گئی تنقید کے بعد چین اپنے اتحادی ملک پاکستان کے دفاع کے لیے سامنے آگیا۔
برطانوی ویب سائٹ رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق چینی وزارت دفاع کی ترجمان ہوا چُن ینگ کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان فرنٹ لائن پر موجود ہے، پاکستان نے اس جنگ میں ’عظیم قربانیاں‘ دی ہیں اور ’اہم حصہ‘ ڈالا ہے۔
ایک نیوز بریفنگ میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا ماننا ہے کہ بین الاقوامی برادری انسداد دہشت گردی میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کرے گی‘۔
واضح رہے کہ پاکستان اور چین ہمسایہ اور اتحادی ہونے کے ساتھ ساتھ دوست ممالک ہیں جبکہ دونوں ممالک کے قریبی سفارتی، اقتصادی اور سیکیورٹی تعلقات ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ ’ہم امید کرتے ہیں متعلقہ امریکی پالیسیاں افغانستان اور خطے میں سلامتی، استحکام اور ترقی کو فروغ دیں گی‘۔
بھارت کی امریکی کوششوں کی تعریف
جنوبی ایشیاء میں امریکا کے اہم اتحادی بھارت نے ٹرمپ کی جانب سے پاکستان سے کیے گئے مطالبے کا خیرمقدم کیا۔
بھارتی وزارت خارجہ امور کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ افغانستان میں قیام امن کے چیلنج کو پورا کرنے کے لیے امریکی کوششوں کو سراہتے ہیں۔
ٹرمپ کی تقریر کے چند گھنٹوں بعد جاری ہونے والے بیان میں پاکستان کا نام لیے بغیر کہا گیا کہ 'دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے حوالے سے بھارت کے خدشات بھی مشترکہ ہیں'۔
بھارتی وزارت نے کہا کہ ’افغانستان میں امن، سیکیورٹی، استحکام اور خوشحالی کے لیے افغان حکومت اور عوام کی حمایت کرتے رہیں گے‘۔
یاد رہے کہ اپنی تقریر میں امریکی صدر نے کہا تھا کہ ’بھارت، امریکا کے ساتھ تجارت سے اربوں ڈالر حاصل کرتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ بھارت، افغانستان کی اقتصادی معاونت اور ترقی کے لیے مزید کام کرے‘۔
نیٹو کا خیرمقدم
امریکا کی اتحادی افواج نیٹو کے سربراہ نے افغانستان کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی حکمت عملی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ نیٹو جنگ سے متاثرہ ملک افغانستان کے لیے کام کرتی رہے گی۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق نیٹو کے سیکریٹری جنرل جنز اسٹولٹن برگ نے افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی پرامریکی صدر کے نقطہ نظر حمایت کی۔
واضح رہے کہ جنوری 2015 سے نیٹو اور اتحادی ممالک کے 12 ہزار سے زائد فوجی افغان سیکیورٹی فورسز کی ’تربیت اور معاونت‘ میں مصروف عمل ہیں۔
سیکریٹری جنرل نیٹو کا کہنا تھا کہ ’نیٹو کے اتحادی ممالک پہلے ہی افغانستان میں فوجیوں کی تعداد میں اضافے کا عہد کرچکے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمارا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ افغانستان دوبارہ کبھی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہ بن سکے جو ہمارے ممالک پر حملے کرتے ہیں‘۔
ٹرمپ فوجی کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں: آسٹریلیا
آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے فوجی تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کی تقریر نے کامیابی کے حساب سے ’انتہائی نیچا معیار‘ قائم کیا ہے۔
دفاعی تجزیہ کار ڈیوڈ کل کیولن کا کہنا تھا کہ ٹرمپ جمہوریت اور کرپشن کے خاتمے کا فروغ نہیں چاہتے بلکہ وہ صرف فوجی کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر سن کر ایسا محسوس ہوا جیسے اسے وائٹ ہاؤس میں کام کرنے والے کسی افسر نے تحریر کیا ہو۔
تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کی تقریر کی توجہ شورش کے خاتمے کے بجائے دہشت گردی سے جنگ پر مرکوز رہی جس میں مزید مہلک طاقت کی ضرورت ہے۔
خطے میں کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا: طالبان
ادھر افغان طالبان نے امریکا کی جانب سے پیش کی جانے والی نئی افغان پالیسی پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ اگر امریکا افغان سرزمین سے اپنے فوجیوں کا انخلاء نہیں کرتا تو ’افغانستان کو امریکی افواج کا قبرستان‘ بنا دیا جائے گا۔
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر میں کچھ بھی نیا نہیں تھا، یہ ایک مبہم تقریر تھی جس میں امریکی صدر نے مزید امریکی فوجی افغانستان میں تعینات کرنے کا اشارہ دیا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’امریکا اپنے فوجیوں کو افغانستان میں ضائع کر رہا ہے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہمیں اپنے ملک کی کس طرح حفاظت کرنی ہے، نئی امریکی پالیسی سے خطے میں کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا۔‘