اسحٰق ڈار نے بھی پاناما کیس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا
اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف کے بعد وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے بھی 28 جولائی کے پاناما فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔
وزیر خزانہ نے نظرثانی درخواست دائر کرتے ہوئے اس درخواست پر فیصلہ سامنے آنے تک 28 جولائی کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو معطل کرنے اور ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے پر عمل درآمد روکنے کی استدعا کردی۔
عدالت میں جمع کرائی جانے والی 9 صفحات پر مشتمل درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ اسحٰق ڈار کے خلاف نام نہاد اعترافی بیان کا الزام لگایا گیا جبکہ درخواست کنندگان نے ان پر آمدن سے زائد اثاثوں کا الزام نہیں لگایا تھا۔
اسحٰق ڈار نے پاناما کیس کی تحقیقات کے لیے قائم ہونے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) پر اختیارات سے تجاوز کا الزام عائد کرتے ہوئے رپورٹ کو مشکوک قرار دے دیا۔
درخواست میں ان کا کہنا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم کو اثاثوں کی تحقیقات کا حکم نہیں دیا گیا تھا جبکہ پاناما کیس کے سلسلے میں 20 اپریل کے عدالتی فیصلے میں بھی اسحٰق ڈار کے خلاف تحقیقات کا کوئی حکم نہیں تھا۔
نظرثانی درخواست میں کہا گیا کہ ’ کیا 16 سال میں اثاثوں میں اضافہ مختصر مدت ہے؟ بطور وزیرخزانہ ان کے اثاثوں میں 544 ملین کی کمی ہوئی ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس فیصلہ: نواز شریف نے نظرثانی اپیلیں دائر کردیں
اسحٰق ڈار نے 09-2008 میں اثاثوں میں ہونے والے اضافے کا اعتراف کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ اثاثوں میں اضافے کی وجہ 6 سالہ غیر ملکی آمدن تھی جس کا ریکارڈ وہ جے آئی ٹی اور عدالت کو فراہم کر چکے ہیں۔
نظر ثانی درخواست کے مطابق ’جے آئی ٹی رپورٹ کے خلاف اسحٰق ڈار کے اعتراضات کو زیرِ غور نہیں لایا گیا، انہوں نے 1983 سے 2016 تک کا مکمل انکم اور ویلتھ ٹیکس کا ریکارڈ فراہم کیا تھا جبکہ ٹیکس انتظامیہ نے بھی اسحٰق ڈار کے ریٹرن کو قبول کیا‘۔
درخواست میں ریفرنس دائر کرنے کے معاملے پر اسحٰق ڈار نے موقف اپنایا کہ ’مشکوک تحقیقاتی رپورٹ پر ریفرنس کیسے دائر ہوسکتا ہے؟ریکارڈ سے ثابت ہے کہ اسحٰق ڈار کے اثاثے آمدن سے زائد نہیں اور اگر حقائق کے برخلاف ریفرنس دائر ہوا تو یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی‘۔
وفاقی وزیر خزانہ نے عدالتی فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ ’جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد کیس کی سماعت 3 ججز نے کی جبکہ فیصلہ 5 ججز نے سنایا، جن 2 جج صاحبان نے کیس سنا ہی نہیں وہ فیصلے میں کیسے شامل ہو گئے؟‘
مزید پڑھیں: اسحٰق ڈار کے خلاف نیب میں انکوائری کا آغاز
درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ ’ریفرنسز کی نگرانی کے لیے نگران جج کے تقرر سے عدالت بظاہر شکایت کنندہ بن گئی ہے، نگران جج کی تعیناتی ٹرائل پر اثر انداز ہو گی، جبکہ یہ تعیناتی اور 28 جولائی کا حکم آرٹیکل 175 اور 203 کی خلاف ورزی ہے'۔
یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے (15 اگست) کو سابق وزیراعظم نواز شریف نے پاناما کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ کی جانب سے اپنی نااہلی کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کے لیے تین اپیلیں دائر کی تھیں۔
ان اپیلوں میں سے ایک میں یہ درخواست کی گئی تھی کہ نظر ثانی اپیلوں کے فیصلے تک پاناما کیس کے فیصلے پر مزید عمل درآمد کو روک دیا جائے۔
28 جولائی کا عدالتی فیصلہ
یاد رہے کہ گذشتہ ماہ 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے حوالے سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ پر سماعت کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو بطور وزیراعظم نااہل قرار دے دیا تھا، جب کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار سمیت ان کے خاندان کے افراد کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔
ملکی تاریخ کے اس سب سے بڑے کیس کا حتمی فیصلہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس گلزار احمد پر مشتمل سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے سنایا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس پر جے آئی ٹی تشکیل، ارکان کا اعلان
25 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ کے 5 جج صاحبان کی جانب سے سابق وزیراعظم کو نااہل قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ نواز شریف نے ’کیپیٹل ایف زیڈ ای‘ سے متعلق کاغذات نامزدگی میں حقائق چھپائے، وہ عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 12 کی ذیلی شق ’ٹو ایف‘ اور آرٹیکل 62 کی شق ’ون ایف‘ کے تحت صادق نہیں رہے، لہذا نواز شریف کو رکن مجلس شوریٰ کے رکن کے طور پر نااہل قرار دیا جاتا ہے۔
عدالتی بینچ نے الیکشن کمیشن کو فوری طور پر نواز شریف کی نااہلی کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے تھے جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی نواز شریف کی نااہلی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا تھا۔