'نظریاتی نواز شریف' کو لڑائی کے بعد یاد آنے والا تھپڑ
28 جولائی 2017 کے فیصلے نے پوری قوم کو ایک عجیب سے مخمصے میں ڈال دیا ہے۔ اگر ایک ایسے عام آدمی کی رائے لی جائے جو کسی بھی سیاسی جماعت سے کچھ خاص وابستگی نہیں رکھتا اور ملکی سیاسی منظر نامے سے بھی اچھی طرح واقف ہے تو وہ بھی نہ تو پوری طرح اس فیصلے سے متفق ہوگا اور نہ ہی اس کے خلاف بات کرے گا۔
اس کی سب سے بڑی وجہ ماضی میں عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہو چکا، پی سی او عدالتیں ماضی کا حصہ بن چکیں، ضیاء، مشرف کے مارشل لا گزر چکے، مگر ان حادثات نے ملک کی جڑیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔
اب عدلیہ اگر کسی بھی 'بڑے' کے خلاف کوئی بھی فیصلہ کرے تو وہ 'بڑا' اس فیصلے کو ان ماضی کے حادثات کی عینک سے دیکھے گا۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں بیٹھا کوئی بھی آئی ایس آئی یا ایف آئی اے کا نمائندہ چاہے جیسی بھی تحقیقات کرے یا جو بھی ثبوت لائے ان کو بھی اسٹیبلشمنٹ کے ماضی کے کردار کے تناظر میں دیکھا جائے گا۔
ایک عام آدمی بھی کنفیوژ ہے اور سوچنے پر مجبور ہے کہ آخر کس ادارے پر کس حد تک اعتماد کیا جائے۔ اگر میں بحیثیت پاکستانی اپنے اداروں کا دفاع کرنا بھی چاہوں، عدالت کے اس فیصلے کو سو فیصد درست مان بھی لوں تو بھی اس فیصلے کے خلاف دلائل دینے والے مجھے ماضی میں ہونے والے واقعات سے مثالیں دے کر میرے دل میں شک و شبہات ڈال دیں گے۔
میاں نواز شریف صاحب اس عدالتی فیصلے کو عوام کی عدالت میں چیلنج کرتے ہوئے اسلام آباد سے براستہ جی ٹی روڈ لاہور پہنچ چکے اور بقول ان کے اور ان کے قریبی رفقا کے عوامی عدالت نے انہیں با عزت بری بھی کر دیا ہے۔ آگے کا لائحہ عمل بھی تقریباً سامنے آ چکا ہے۔
ماضی میں ضیاء الحق کے بنائی گئی شق 62 اور 63 کی آبیاری کی ذمہ داری میاں صاحب نے خود اپنے سر لی تھی، اسے خوب پال پوس کر بڑا کیا اور اپنے دو ادوار میں اس پر خاموش رہے، بلکہ میں تو کہوں گا کہ تینوں ادوار میں خاموشی سادھے رہے کیونکہ جس دن یہ فیصلہ آیا تھا اس سے ٹھیک ایک دن پہلے تک بھی نواز شریف صاحب شق 62 اور 63 کو کسی صورت اپنی توجہ دینا گوارا نہیں کر رہے ہوں گے۔
پھر اچانک فیصلہ آیا اور وہ شقیں جن کی میاں صاحب اپنے تمام ادوار حکومت میں حفاظت کرتے آئے تھے وہی بری لگنی شروع ہو گئیں کیونکہ اس بار میاں صاحب خود ان شقوں کے شکار بنے۔
اسلام آباد سے لاہور جاتی سڑک پر چار دن تک جاری رہنے والا شور اس لیے نہیں تھا کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے 'ایک وزیر اعظم' کو فارغ کیا ہے۔ اگر دکھ وزیر اعظم کو فارغ کرنے کا ہوتا تو میاں صاحب آپ کو یہ شور شرابا آج سے ٹھیک پانچ سال پہلے بھی کرنا چاہیے تھا جب یوسف رضا گیلانی کو عدالت کی طرف سے اسی شق 63 کے تحت سزا سنا کر گھر بھیج دیا تھا اور پھر آپ نے عوامی خطابات میں اس عدالتی فیصلے کی کھل کر حمایت کی۔
چنانچہ یہاں یہ بات تو ثابت ہوئی کہ اس بات کا زیادہ دکھ نہیں کہ ایک وزیر اعظم کو اعلیٰ عدلیہ نے گھر بھیجا بلکہ اصل دکھ تو اس بات کا ہے کہ نواز شریف کو عہدہ چھوڑنے کا حکم کیوں دیا گیا۔
ایسی کیا وجوہات تھیں کہ سابقہ دورِ حکومت میں ایک بڑی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والی اور ملک کے سب سے بڑے صوبے میں حکومت کرنے والی جماعت نے اُس وقت کوئی آواز کیوں نہیں اٹھائی جب ایک وزیر اعظم کو اسی شق کے تحت فارغ کیا جا رہا تھا، حالانکہ وہ بھی نواز شریف کی ہی طرح عوامی مینڈیٹ کے حامل وزیر اعظم تھے؟
میاں صاحب اگر ایک لمحے کے لیے مان بھی لیا جائے کہ سیاستدانوں کے خلاف ان شقوں کا غلط استعمال ہوا ہے تو عوام آپ سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ یہ خیال آپ کو آج ہی کیوں آیا؟
نا اہل ہونے کے فوراً بعد آپ نے پنجاب ہاؤس میں اپنے پارٹی رہنماؤں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب میں نظریاتی ہو چکا ہوں، آج سے 20 سے 25 سال پہلے نہیں تھا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ نظریاتی اس فیصلے کے فوراً بعد ہوئے ہیں 20 سے 25 سال پہلے نہیں بلکہ گزشتہ پانچ سال پہلے بھی آپ نظریاتی نہیں تھے کیونکہ آپ نے اقتدار سے باہر یا اقتدار میں رہتے ہوئے آئین کی اس شق کے خلاف آواز نہیں اٹھائی، الٹا بعض جگہوں پر حمایت کی۔
ہمارے ملک کا یہ المیہ رہا ہے کہ جب کوئی سیاسی جماعت حکومت میں ہوتی ہے تو آئین کی تشریح کچھ اور ہوتی ہے اور جب اسی جماعت کے اراکین اپوزیشن بینچوں پر براجمان ہوتے ہیں تو آئین کی تشریح ایک مخصوص طرز فکر کے ساتھ کی جاتی ہے۔ میثاقِ جمہوریت کی مثال دی جاتی ہے کہ سابق وزراء اعظم نے یہ معاہدہ صرف جمہوریت بچانے کے لیے کیا۔
مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ میثاق اس وقت ہوا جب دو وزراء اعظم ملک سے باہر تھے اور ایک آمر انہیں وطن واپسی کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ اگر محترمہ بے نظیر بھٹو یا میاں صاحب میں سے کسی ایک کی بھی اس ملک میں حکومت ہوتی تو کیا ایسے کسی میثاقِ جمہوریت کا تصور ممکن تھا؟ بعدازاں دونوں جماعتوں کی ایک دوسرے کے پیچھے حکومتیں قائم ہوئیں لیکن میثاق جمہوریت پر کتنا فیصد عمل ہوا وہ بھی پوری قوم کے سامنے ہے۔
آج ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ میاں نواز شریف صاحب نے پوری حکومت کو ساتھ لے کر اس آئین کی شق میں ترامیم کے لیے کمر کس لی ہے۔ اب تو انہوں نے ہر صوبے میں جا کر وہاں کے لوگوں کو اس آئینی شق کی بھیانک شکل اور اپنی مظلومیت کا جواب دینے کا ارادہ بھی کیا ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے اس فیصلے کے بعد ملک کا سب سے بڑا مسئلہ شق 62 اور 63 ہے۔ اس کے لئے بڑی سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر کسی عمرانی معاہدے کی بات کی جا رہی ہے۔
میاں صاحب فاٹا کا ایک عام شہری آپ سے پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ اسے 'انتظار فرمائیے' کیوں کہا گیا ہے، جبکہ چار سال گزرنے کے باوجود انتخابی اصلاحات کے حوالے سے کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوئی اور نہ ہی ابھی تک قومی اسمبلی سے کوئی خاطر خواہ قانون سازی نظر آئی ہے۔
دوسری طرف اس سارے شور سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے مفادات کو مدِ نظ رکھتے ہوئے سندھ اسمبلی سے احتساب بل منظور کر کے نیب کو بے اختیار کرنے کی کوشش کی ہے مگر سندھ ہائی کورٹ اس میں رکاوٹ بن گئی ہے۔
اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کہ آئین کی اس شق کا کہیں بھی غلط استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اس بات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے کہ حکمران جماعت کو یہ خیال اس وقت ہی کیوں آ رہا ہے؟
آج تحریک انصاف نے اس شق کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور عمران خان نے لیاقت باغ کے جلسے میں ہر اس سیاسی جماعت کے خلاف اعلان جنگ کی دھمکی دی ہے جو شق 62 اور 63 کے خلاف ترامیم کا سوچے گی، مگر سوال یہ ہے کہ کیا خان صاحب کا یہ دعوہ بھی صرف اس وقت تک رہے گا جب تک وہ خود اس کا نشانہ نہیں بنتے؟ سپریم کورٹ میں عمران خان صاحب کے خلاف جاری کیس کا فیصلہ اگر شق 62 اور 63 کے تحت ان کے خلاف آتا ہے تو کیا پھر بھی ان کا مؤقف یہی ہوگا؟
اگر حکمران جماعت عام انتخابات سے قبل شق 62 اور 63 کے اس قانون میں ترامیم کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات اٹھاتی بھی ہے تو ہمارے ملک کے حالات ایسے نہیں کہ لوگ آپ کے اس فیصلے کو فوری طور پر قبول کر لیں گے۔ اگر آپ اس شق کی ترمیم کے لیے بڑی سیاسی جماعتوں کو راضی کر بھی لیتے ہیں تو بھی اس کو تبدیل کرنا اتنا آسان نہیں۔
اس کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتیں اور مختلف مذہبی تنظیمیں آپ کے ایسے اقدام کی کچھ ایسی تشریح عام لوگوں کے سامنے رکھیں گی کہ آپ پر توہین مذہب جیسے الزامات بھی لگائے جا سکتے ہیں اور یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو سکتا ہے جب الیکشن سر پر ہوں گے۔ جبکہ آپ پر اور آپ کے بچوں پر کرپشن کا کیس اور عدالتی فیصلہ، اپوزیشن جماعتوں کاعام انتخابات کا نعرہ تو ویسے ہی بن چکا ہے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ اس شق میں ترامیم کی کوشش آپ کے خلاف جائے اور آپ کو کسی دوسری مشکل صورتحال سے دوچار کر دے۔
میاں صاحب فیصلے کے فوراً بعد آپ کی تقاریر اور مستقبل کا لائحہ عمل ایک ایسا تھپڑ محسوس ہو رہا ہے جو لڑائی کے بعد یاد آتا ہے۔ آپ اگر نظریاتی ہو ہی گئے ہیں تو قانون سازی رد عمل کے طور پر مت کریں۔ ہاں آئینی ترامیم اور قانون سازی پر غور و فکر ضرور کریں لیکن خود کو عدالتی فیصلے کا شکار سمجھ کر نہیں بلکہ اپنی ذات سے بالا تر ہو کر کریں۔
تبصرے (3) بند ہیں