برقع پہن کر پارلیمنٹ آنے والی آسٹریلوی سینیٹر پر تنقید
آسٹریلیا کی اقلیتی سیاسی جماعت ’ون نیشن‘ کی سینیٹر پالن ہینسن نے جمعرات (17 اگست) کو برقع پہن کر آسٹریلوی پارلیمنٹ پہنچ کر ایک ہنگامہ کھڑا کردیا۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق خاتون سیاستدان کی اس حرکت کی وجہ اسلامی پردے اور برقع پر قومی پابندی کا مطالبہ تھا جس پر ساتھی قانون سازوں نے انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
مسلمان مخالف سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والی سینیٹر 10 منٹ تک برقع پہنے پارلیمنٹ میں بیٹھی رہیں، جس کے بعد برقع اتار کر انہوں نے وضاحت دی کہ وہ قومی سلامتی کے لیے ایسے لباس پر پابندی چاہتی ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پرستار سیاستدان پالن ہینسن کا کہنا تھا کہ ‘آسٹریلیا کی اکثریت برقع پر پابندی کی حمایت کرتی ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: آسٹریلیا : پارلیمنٹ میں حجاب پر پابندی ختم
تاہم اس موقع پر اٹارنی جنرل جارج برانڈس کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت کبھی بھی برقع پر پابندی عائد نہیں کرے گی، جس پر قانون سازوں نے ان کی تعریف کی۔
اٹارنی جنرل نے خاتون سیاستدان کے اس اقدام کو ’اسٹنٹ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی اس حرکت سے آسٹریلیا میں موجود مسلمان اقلیت کے جذبات مجروح ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کسی کمیونٹی کا مذاق اڑانا، ان کے مذہبی لباس کا تمسخر اڑانا قابلِ نفرت ہے اور میں آپ سے درخواست کروں گا کہ اپنے اس اقدام پر غور کریں‘۔
اپوزیشن لیڈر نے بھی خاتون سینیٹر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’ایمان پر عمل کرتے ہوئے اپنا مذہبی لباس پہننا اور سینیٹ میں اسٹنٹ کے طور پر ایسا لباس پہن کر آنے میں فرق ہے‘۔
مزید پڑھیں: سوئٹزرلینڈ میں برقع پرپابندی، 10 ہزار ڈالرجرمانہ
ایران میں پیدا ہونے والے مسلمان آسٹریلوی سینیٹر کا کہنا تھا کہ ’انہوں نے آج چیمبر میں سب کرتبوں سے انوکھا کرتب ہوتے دیکھا‘۔
یاد رہے کہ اکتوبر 2014 میں آسٹریلوی حکومت نے پارلیمنٹ ہاؤس میں مسلمان خواتین کے حجاب پہنے پر عائد پابندی اٹھا لی تھی۔
آسٹریلوی حکومت کی جانب سے حجاب پر لگائی گئی پابندی آسٹریلوی وزیراعظم ٹونی ایبٹ کی مداخلت کے بعد اٹھائی گئی تھی۔
دنیا بھر کے کئی یورپی ممالک ایسے ہیں جہاں مسلمان خواتین کے حجاب اور برقع پہننے پر انہیں امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ اس کے خلاف پابندی کی قانون سازی کی کوششیں بھی جاری ہیں۔
فرانس اور بیلجیئم نے 2011 میں برقع پر پابندی عائد کی تھی جب کہ نیدرلینڈ کی پارلیمنٹ میں بھی اس پر بحث جاری ہے۔
دسمبر 2016 میں جرمن چانسلر انجیلا میرکل نے بھی کہا تھا کہ نقاب پر جس حد تک ممکن ہو پابندی ہونی چاہیے جبکہ برطانیہ میں اس طرح کی کوئی پابندی عائد نہیں ہے۔