پاکستانیوں کی آن لائن خریداری نہ کرنے کی 5 وجوہات
عالمگیریت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی نے اپنا ذاتی کاروبار شروع کرنے والے افراد کو کم وقت اور بہتر انداز میں مصنوعات کی تیاری، ترسیل اور صارفین تک سہولیات فراہم کرنے کے بےشمار مواقع فراہم کیے ہیں۔
ٹیکنالوجی اور کاروبار کا یہ امتزاج ای کامرس کو سامنے لانے کا سبب بنا جہاں مصنوعات تیار کرنے والے، تقسیم کار اور صارفین تینوں ہی بذریعہ انٹرنیٹ ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور دنیا بھر میں اشیاء کی خرید وفروخت کرسکتے ہیں۔
یہ ہی وجہ ہے کہ عالمی ای کامرس کے مشہور نام جیسے کہ امیزون، علی بابا، ای بے، زالاندو کامیابی سے بین الاقوامی مارکیٹس میں اپنا نام بنا چکے ہیں۔
تاہم زبردست ترقی اور دنیا بھر کی توجہ حاصل کرنے والا یہ سیکٹر پاکستان میں اہم صنعتی کھلاڑی بن کر سامنے نہیں آرہا۔
جیسے کہ ہر مارکیٹ اور اس کا حصہ بننے والے افراد اپنی منفرد خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں، ویسے ہی پاکستان میں ای کامرس کے پھلنے پھولنے میں سست روی کی کئی اقتصادی، سماجی اور تہذیبی وجوہات ہیں۔
پہلی وجہ
اس کی سب سے پہلی وجہ صارفین کا روایتی ریٹیل مارکیٹس کو ترجیح دینا اور نئے کیش اینڈ کیری ماڈل کی طرز پر تیار اسٹورز کا رخ کرنا ہے۔
تہذیبی سرگرمیوں کی کمی اور انٹرٹینمنٹ کے محدود مواقع کی وجہ سے پاکستانی صارفین کے لیے شاپنگ کا تصور روزمرہ روٹین سے ہٹ کر اور گھر سے باہر تفریح کا ایک بہانہ ہے۔
شہری علاقوں میں خواتین صارفین کے مروجہ ماڈل میں گھر سے باہر شاپنگ کو ترجیح دی جاتی ہے جہاں سودا سلف کی خریداری اور اہل خانہ کے ساتھ ریسٹورنٹس میں کھانے کے دونوں کام ساتھ ہوجاتے ہیں۔
مغربی ممالک کے صارفین کے برخلاف، جنہیں شاپنگ کے لیے اسٹورز کا رخ کرنے کا وقت کم ہی مل پاتا ہے، پاکستانی شہری اس طرح شاپنگ کرکے اسے فیملی ایونٹ بناتے ہیں اور لطف اٹھاتے ہیں۔
دوسری وجہ
دوسری اہم وجہ پاکستانی مارکیٹس میں فراڈ اور دھوکے بازی کے کلچر کی موجودگی ہے، جہاں فروخت کنندہ اپنی مصنوعات کے عیب کو چھپاتے ہیں۔
اس صورتحال میں صارفین کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ خود بازار کا رخ کریں اور جو چیز وہ خریدنا چاہتے ہیں اس کے معیار اور مقدار کو پرکھ سکیں۔
ایسا متعدد آن لائن شاپنگ کے واقعات میں سامنے آچکا ہے جہاں مصنوعہ کا رنگ، ذائقہ، جسامت، شکل اور ڈیزائن ویب سائٹ پر دکھائی ہوئی چیز سے مختلف سامنے آتا ہے۔
پاکستانی کاروبار میں اس فراڈ کی موجودگی کی وجہ سے صارفین کا ای کامرس ویب سائٹس پر اعتماد متاثر ہوتا ہے۔
تیسری وجہ
تیسری وجہ آن لائن ویب سائٹس پر متاثر کن رعایت کی عدم موجودگی ہے، دنیا بھر میں ای کامرس کے کامیاب نام اپنے صارفین کو رعایت دے کر ترقی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
علاوہ ازیں چند ویب سائٹس کی جانب سے پیش کی جانے والی رعایتی قیمتیں عام ریٹیلر کی عمومی قیمتوں سے بھی زیادہ ہوتی ہیں جو صارفین کو الجھن میں ڈالنے کا سبب بنتی ہیں۔
ای کامرس کے ذریعے صارفین تک مصنوعات کی مؤثر ترسیل کا وعدہ کم قیمتوں کی صورت دکھائی دیا جانا چاہیے۔
چوتھی وجہ
ای کامرس پر لوگوں کا اعتماد نہ بڑھنے کی چوتھی وجہ پاکستانی خاندانوں کے بجٹ میں غیر برانڈڈ اور استعمال شدہ مصنوعات کے دوبارہ استعمال کی موجودگی ہے۔
قلیل تنخواہوں اور مہنگائی کی وجہ سے پاکستان کے مقامی بازار کم قیمت، بغیر برانڈ کے فروخت ہونے والی گھریلو استعمال کی اشیاء سے بھرے ہوئے ہیں لیکن ای کامرس ویب سائٹس کو ابھی اس حوالے سے کام کرنا باقی ہے۔
پانچویں وجہ
ای کامرس کی وسعت میں ناکامی کی پانچویں وجہ یہ ہے کہ آن لائن ویب سائٹس کی تمام تر توجہ شہر کے اَپر مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والے صارفین تک محدود ہے جو کُل صارفین کا ایک محدود حصہ ہیں۔
لور مڈل کلاس صارفین، صنعتی صارفین اور ریٹیلرز وہ طبقات ہیں جنہیں نئی مصنوعات تیار اور پیش کرتے ہوئے خاص خاطر میں نہیں لایا جاتا۔
علاوہ ازیں موجودہ ای کامرس کاروباروں کے لاجسٹکس آپریشنز شہروں تک محدود ہیں جبکہ آبادی کے 60 فیصد حصے پر مشتمل دیہی علاقوں کو مکمل طور پر نظرانداز کیا جاتا ہے۔
مختصراً آن لائن فروخت کنندہ کو ان تمام سماجی، تہذیبی، اقتصادی معاملات کو نظر میں رکھتے ہوئے مصنوعات تیار کرنی چاہئیں جو مقامی بازاروں اور صارفین کے لیے قابل خرید ہوں۔
سب سے بہتر تو یہ ہے کہ ای کامرس کاروبار ہول سیل نظام کی طرح کام کریں جو مقامی ہول سیل مارکیٹس سے منسلک ہو کر زیادہ خریداری پر بھاری رعایت دیتے ہیں۔
ہر کاروبار کی طرح ای کامرس ویب سائٹس کے منتظمین کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ صارفین کا اعتماد اور مناسب قیمتوں کے حوالے سے کاروبار کے اخلاقی طریقوں، معیاری کوالٹی، خفیہ قیمتوں کا نہ ہونا اور موثر ڈیلیوری وہ باتیں ہیں جو صارفین کے دل جیت سکتی ہیں۔
یہ رپورٹ ڈان کے بزنس اینڈ فنانس ویکلی میں 14 اگست 2017 کو شائع ہوئی۔
تبصرے (1) بند ہیں