'چین آئے نہ' خواتین کے خلاف تشدد پر ابھارنے کی کہانی
جب تک میں نے سید نور کی 11 اگست کو ریلیز ہونے والی فلم ٗچین آئے نہ دیکھی تھی، اس وقت تک مجھے پاکستانی سینما سے نفرت نہیں ہوئی تھی، لیکن اب فلم دیکھنے کے بعد ایسا نہیں رہا۔
گذشتہ چند سالوں میں ہم نے ہر طرح کی اچھی، ناقص، غیر معیاری، حقیقی انٹرٹینمینٹ اور دلچسپی سے بھری اور ان موضوعات سے دور فلمیں بھی بنائی ہیں، لیکن گزشتہ رات سے پہلے یہ میں کہ سکتی تھی کہ پاکستان سینما انڈسٹری کی کامیابیوں پر ہمیں فخر ہے۔
لیکن چین آئے نہ دیکھنے کے بعد ایسا نہیں ہے، اس فلم نے ہماری سینما انڈسٹری کو کئی دہائیاں پیچھے دھکیل دیا۔
قریبا 2 گھنٹے سے زائد دورانیے کی فلم خالص عورت بیزاری، جنس پرستی اور کلاسکیت پر مبنی ہے، فلم خواتین کے خلاف تشدد پر ابھارتی، بدسلوکی پر مبنی تعلقات استوار کرنے کی ترغیب دیتی اور غیر رضامندی کے تعلقات بنانے کے لیے تشدد کی راہ اپنانے جیسے موضوعات کو فروغ دیتی ہے۔
خواتین کے خلاف اس طرح کے جذبات اور خیالات پر ابھارنے والی فلم بنانے کے بعد میں صرف اور صرف اس نتیجے پرپہنچی ہوں کہ سید نور نے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت ہی اسے خواتین کے خلاف بنایا۔
چین آئے نہ کے ذریعے سیاست اور جمالیات کو بھرپور طریقے سے خراب کرنا ہماری بدقسمتی ہے۔
فلم کی کہانی مرکزی کردار ادا کرنے والی روبا (سحرش خان) اور نوجوان موسیقار ریان (شہروز سبزواری) کے ارد گرد گھومتی ہے، لیکن فلم کی کہانی جیسے جیسے آگے بڑھتی جاتی ہے، اس میں خواتین کے خلاف تشدد اور ان کے خلاف روایتی فرسودہ خیالات کھل کر سامنے آتے جاتے ہیں۔
روبا اور ریان ایک دوسرے کو ایک شادی کے موقع پر دیکھتے ہیں، جہاں صرف ایک بار ڈانس دیکھنے کے بعد ہی ریان روبا پر فدا ہوجاتا ہے، اور ان سے پیار کرنے لگتا ہے۔
آگے چل کر روبا انہیں بتاتی ہیں کہ وہ پہلی سے ہی منگنی کر چکی ہیں، اور وہ ان سے پیار نہیں کرسکتیں، بس روبا کا انکار اور ریان کی جانب سے تشدد کا سہارا لینا۔
فلم خواتین پر تشدد، غیر اخلاقی تعلقات اور ان کے لیے فرسودہ خیالات پر مردوں کی سوچ کو ظاہر کرتی ہے۔
روبا کی منگنی بھی ایک سیاسی سودے کی تحت کی گئی ہوتی ہے، کیوں کہ روبا کی والدہ ایک سیاسی سودے کے تحت اپنی بیٹی کی شادی ایک دوسرے سیاسی شخص کے بیٹے سے کرنا چاہتی ہیں۔
فلم اس وقت مزید بد صورت، غیر معیاری بن جاتی ہے، جب روبا کا منگیتر مراد فلم میں نمودار ہوتا ہے، سمجھ نہیں آتا کہ فلم کا مرکزی کردار ریان ہے یا مراد؟
مراد کو پہلے ہی عورتوں اور شراب نوشی کی لت لگی ہوئی ہوتی ہے، جو ایک سست اور نااہل سیاستدان کا بیٹا ہوتا ہے، ان کا اپنی منگیتر کے علاوہ ایک اور ڈولی نامی لڑکی سے افیئر ہوتا ہے۔
فلم کو دیکھتے ہوئے اس وقت آدمی کی سوچ تبدیل ہوتی ہے، جب فلم کے کردار ایک دوسرے پر تھپڑ کی بارش کردیتے ہیں۔
ریان اور روبا ایک گولف کورس میں اکٹھے ہوتے ہیں، جہاں پر ایک بار پھر ان کے درمیان پیار سے متعلق بحث شروع ہوجاتی ہے، ریان اس بات پر بضد ہوتے ہیں کہ روبا جلد ہی ان کے پیار کے اثر میں آجائے گی، تاہم وہ اس خیال کو مسترد کردیتی ہیں۔
روبا جیسے ہی وہاں سے چلنے لگتی ہے تو ریان انہیں بازو سے پکڑتا ہے، جس پر روبا انہیں دو تھپڑ رسید کردیتی ہیں، اس سے زیادہ خطرناک تشدد اس وقت سامنے آتا ہے، جب ریان روبا کو ایک نہیں بلکہ پر تین تھپڑ مارتا ہے۔
چہرے پر تھپڑ پڑنے کے بعد روبا کا خوف ان کی آنکھوں اور چہرے سے ظاہر ہوتا ہے، ریان اپنے کیے پر شرمندہ ہونے کے بجائے عقلی دلیل پیش کرتے ہیں کہ یہ عمل روبا کی جانب سے ریان کی خواہش کی عدم تعمیل کے سبب پیش آیا۔
جو لوگ گھریلو تشدد سے متعلق تھوڑی بہت معلومات رکھتے ہیں، وہ سمجھ چکے ہیں ہوں گے فلم میں کیا دکھانے کی کوشش کی گئی ہے، اور لوگوں کو کس رجحان کی طرف ابھارنے کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔
چین آئے نہ کا خواتین کے خلاف تشدد تھپڑ تک محدود نہیں رہتا، بلکہ فلم میں آگے چل کے خاتون کا قتل بھی ہوتا ہے۔
فلم میں روبا کے منگیتر مراد کا افیئر جس ڈولی نامی خاتون سے ہوتا ہے، وہ اس سے پیار کر بیٹھتی ہے، اور آگے چل کے مراد کو دھمکی دیتی ہے کہ وہ اسے اپنائے ورنہ وہ خودکشی کرلے گی۔
کیوں کہ چین آئے نہ میں خواتین کو ایک مقصد کے طور پر پیش ہی نہیں کیا گیا، اس لیے آگے چل کہ مرد کی عیاشی اور سنگ دلی کے باعث خاتون کا قتل ہوتا ہے، اور یہ عمل بھی خواتین کواستعمال کیے جانے پر ابھارنے کی ایک کوشش ہے۔
ڈولی مرنے سے پہلے اپنے قاتل کا شکریہ ادا کرتی ہے، اور جب مراد روبا کے سامنے اپنا جرم قبول کرتا ہے تو اسے اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ڈولی ان کے درمیان دیوار بننے جا رہی تھی۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ شہروز سبزواری نے فلم ڈیبیو کے لیے خواتین پر تشدد پر ابھارنے والی فلم ہی کیوں منتخب کی؟
فلم دیکھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ کاش یہ بات سامنے آئے کہ ریان نفسیاتی مسائل سے دوچار ہے، مگر فلم ختم ہوجاتی ہے، اور ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔
چین آئے نہ کے ذریعے سید نور نے نہ صرف فلم انڈسٹری کو دہائیوں تک پیچھے دھکیل دیا، بلکہ معاشرے میں بے راہ روی، خواتین کے خلاف منفی اور پر تشدد جذبات کو بھی ابھارنے کی کوشش کی۔
فلم دیکھنے کے دوران سینما ہال میں میرے سامنے بیٹھے مرد مناظر دیکھتے ہے اپنی آراء دینے لگے، اور ان میں سے ایک نے خاتون کو قتل ہوتے ہوئے دیکھ کر کہا اچھا کیا۔
لعنت ہو، فلم دیکھنے کے بعد یمیں یہ الفاظ کہتی ہوئی سینما ہال سے نکل آئی۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں