• KHI: Zuhr 12:32pm Asr 4:14pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:28pm
  • ISB: Zuhr 12:08pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:32pm Asr 4:14pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:28pm
  • ISB: Zuhr 12:08pm Asr 3:27pm

سابق وزیراعظم کو 'بچانے' کیلئے قانون سازی میں حکومتی تاخیر

شائع August 2, 2017

اسلام آباد: سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما پیپرز کیس میں وزارت عظمیٰ کے عہدے سے نا اہل قرار دیے جانے کے بعد نواز شریف اپنے ہی ساتھیوں کی غفلت کے باعث فیصلے کے خلاف اپیل کا وقت گنوا چکے۔

سابق وزیراعظم کی ٹیم نے تنقید کے خوف سے ایوان میں ترمیم لانے کی بھی کوشش نہیں کی، جس کی مدد سے نواز شریف کو اپنی نااہلی کے خلاف اپیل کرنے اور مختلف لارجر بینچ مقرر کرنے کے مطالبے کا موقع حاصل ہو جاتا۔

اس وقت نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کی جاسکتی تاہم اس پر نظر ثانی کے لیے درخواست دی جاسکتی ہے جس کا دائرہ کار محدود ہے۔

گذشتہ ماہ 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے نواز شریف کو ریپریزنٹیٹو پیپلز ایکٹ (روپا) کے سیکشن 99 ایف اور آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت وزارت عظمیٰ کے عہدے سے نا اہل قرار دے دیا تھا۔

مزید پڑھیں: نواز شریف کے بعد آصف زرداری کے پیچھے آؤں گا،عمران خان

سابق وزیراعظم کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان، جماعت اسلامی (جے آئی) کے امیر سراج الحق اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کی جانب سے جمع کرائی گئی پٹیشن پر نا اہل قرار دیا گیا۔

یہ پٹیشن آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت دائر کی گئی تھی جو خصوصی عدالت کو بنیادی حقوق نافذ کرنے کے لیے با اختیار بناتا ہے۔

تاہم آئین کے اس آرٹیکل کے اختیارات میں ترمیم اور ازخود نوٹس کیسز پر نظرثانی کے لیے پیپلز پارٹی کے ایاز سومرو کی جانب سے بل ایوان میں پیش کیا گیا جو اس وقت زیر التواء ہے۔

مذکورہ بل میں لاء ریفارمز آرڈیننس 1972 کے سیکشن 3 اور 4 میں ترامیم کی تجویز پیش کی گئی، جس کے تحت ازخود نوٹس پر فیصلے کے خلاف اپیل کی جاسکے گی جس کی سنوائی سپریم کورٹ کا لارجر بینچ کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: 2018 کے بعد بھی نواز شریف وزیراعظم ہوں گے: رانا ثناء

یہ بل 2015 میں اسمبلی میں لایا گیا جسے حکومت نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ مذکورہ بل کو آئینی ترمیم کے طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

گذشتہ برس نومبر میں اس بل کو سابق وزیر قانون زاہد حامد نے آئینی ترمیم قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تاہم قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے اس بل کو قائمہ کمیٹی برائے قانون اور انصاف کے حوالے کیا جس نے بعد ازاں مارچ میں اسے قابل غور قرار دے کر واپس اسمبلی میں ووٹنگ کے لیے بھیج دیا تھا۔

اس مجوزہ قانون کے تحت سپریم کورٹ کے فیصلوں کو 2 ماہ کے اندر چیلنج کیا جاسکتا ہے۔

اگر یہ بل منظور کر لیا جاتا تو اٹھارہویں ترمیم کی تاریخ سے ہی نافذ العمل ہوجاتا، یہ وہ وقت ہے جب سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بڑی تعداد میں ازخود نوٹس لیے۔

مزید پڑھیں: وہ منصوبے جن کا نواز شریف افتتاح نہ کرسکے

2010 میں اٹھارہویں ترمیم کا مسودہ تیار کرنے والی آئینی اصلاحاتی کمیٹی کے رکن اور ماہر قانون ایس ایم ظفر نے کہا کہ کمیٹی، آرٹیکل 184(3) میں ترمیم کرنا چاہتی ہے تاہم ممبران کی ایک بڑی تعداد نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر انہوں نے اس مسئلے پر بات کی تو اُس وقت کے چیف جسٹس اس سارے معاملے کو ختم کردیتے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ آئینی اصلاحاتی کمیٹی کے ارکان اس معاملے کو بعد کے مراحل کے لیے رکھنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمیٹی آئین سے آرٹیکل 62 اور 63 کو ختم کرنا چاہتی تھی تاہم پاکستان مسلم لیگ (ن) اس کے خلاف تھی۔

اس حوالے سے وزیراعظم کے معاون خصوصی ظفر اللہ خان نے کہا کہ حکمراں جماعت اس ترمیم کے حق میں نہیں تھی کیونکہ اگر ایسا کیا جاتا تو اپوزیشن جماعتیں مسلم لیگ (ن) پر پاناما کیس میں اپنے آپ کو بچانے کا الزام لگا دیتیں۔


یہ خبر 2 اگست 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 24 دسمبر 2024
کارٹون : 23 دسمبر 2024