• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

6 ماہ میں 10 کم سن بچوں کا ریپ اور قتل

شائع July 23, 2017

قصور: پنجاب میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں اچانک ایک مرتبہ پھر اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور گذشتہ 6 ماہ کے دوران صرف قصور شہر میں 5 سے 10 سال کی عمر کے 10 کم سن بچوں کو ریپ کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا۔

ان مقتولین کی لاشیں زیر تعمیر مکانات سے برآمد کی گئیں۔

رواں سال جنوری سے شروع ہونے والے ان حولناک واقعات میں ریپ کا نشانہ بنائے جانے والے 10 متاثرہ بچوں میں ایک 8 سالہ لڑکی بھی شامل ہے، جسے حال ہی میں درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔

پولیس کو مذکورہ لڑکی کی لاش 8 جولائی کو شاہ عنایت کالونی کے ایک زیر تعمیر مکان سے ملی، یہ لڑکی اپنے گھر سے ٹیوشن سینٹر کے لیے نکلی تھی جس کے بعد لاپتہ ہوگئی۔

مقتولہ تیسری کلاس کی طالبہ تھی اور اس کے والد ایک گھریلوں ملازم ہیں۔

گذشتہ 6 ماہ میں جن بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، ان میں 7 لڑکیاں اور 3 لڑکے شامل ہیں۔

ہر واقعے کے بعد متاثرہ خاندان کے ہمراہ شہریوں کی بڑی تعداد نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا بعد ازاں پولیس کی یقین دہانی کے بعد منتشر ہوجاتے تھے، کہ واقعے میں ملوث افراد کو جلد کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔

تاہم پولیس کسی بھی کیس کو حل کرنے میں ناکام رہی جبکہ پولیس کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ دو مبینہ ریپ ملزمان کو ان کے ساتھیوں نے مقابلے میں ہلاک کردیا ہے۔

خیال رہے کہ دو سال قبل حسین خان والا میں سیکڑوں بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے اور اس کی ویڈیو بنانے کے بعد ان کے اہل خانہ کو بلیک میل کرنے کے واقعات نے قصور کی تاریخ میں ایک ناقابل یقین نقوش چھوڑے تھے۔

بچوں کو نشانہ بنانے کے واقعات رواں سال جنوری میں شروع ہوئے، پہلا واقعہ کوٹ پروین میں پیش آیا تھا جس میں 5 سالہ لڑکی کو ریپ کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا تھا اور اس کی لاش زیر تعمیر مکان سے ملی تھی، تاہم پولیس اس کے قاتلوں تک پہنچنے میں ناکام رہی۔

فروری میں ایک کم سن لڑکی کی لاش علی پارک سے برآمد ہوئی تھی اور یہ لاش بھی زیر تعمیر مکان سے برآمد کی گئی تھی، ان واقعات نے لوگوں میں تشویش پیدا کردی ہے۔

شاہ عنایت کالونی کے رہائشی محمد اکبر کا کہنا تھا کہ ’ان واقعات کے بعد میں نے اپنی بیٹیوں کو ٹیوشن سینٹر جانے سے روک دیا ہے، یہ خوفناک اور دہشت گردی سے زیادہ خطرناک ہے‘۔

واضح رہے کہ ایسے واقعات کے فوری بعد پولیس متعدد افراد کو گرفتار کرتی ہے تاہم ان کیسز میں مزید پیش رفت دیکھنے میں نہیں آتی۔

اس ساری صورت حال پر سول سوسائٹی کے رضاکاروں نے پولیس کے تحقیقاتی عمل کا تنقید کا نشانہ بنایا ہے، ان کے مطابق نہ تو پولیس افسران کو متعلقہ ٹریننگ دی جاتی ہے اور نہ ہی وہ تحقیقات کے جدید طریقہ کار سے واقف ہیں۔

ان واقعات کے حوالے سے انویسٹی گیشن سپریٹینڈنٹ آف پولیس امجد محمود قریشی کا کہنا تھا کہ وہ میڈیا کے نمائندوں کو اپنے دفتر میں بلا کر اس صورت حال پر بریفنگ دیں گے۔


یہ رپورٹ 23 جولائی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024