ترکی کے نئے تعلیمی نصاب سے 'نظریہ ارتقاء' خارج
انقرہ: ترک حکومت نے اسکول کے نئے تعلیمی نصاب میں مشہور سائنسدان چارلس ڈارون کے 'نظریہ ارتقاء' کو حذف کرتے ہوئے نئے تعلیمی نصاب کا اعلان کردیا جو 2017 کے تعلیمی سال سے لاگو ہوگا۔
ترکی کی اساتذہ یونین کے چیئرمین نے اس اقدام کو ترک اسکولوں کے لیے 'غلط سمت میں ایک بڑے قدم' سے تشبیہ دی اور کہا کہ یہ سوالات پوچھنے والی ابھرتی ہوئی نوجوان نسل کو نظر انداز کرنے کے لیے ایک قدم ہے۔
ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق ترک وزیر تعلیم عصمت یلماز کا کہنا تھا کہ ڈارون کے نظریہ ارتقاء کے کچھ عناصر کو پہلے ہی سائنسی نصاب سے الگ کیا جاچکا ہے لیکن اب یونیورسٹی تک چارلس ڈارون کے نظریے کو نہیں پڑھایا جائے گا۔
ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ نظریہ طالب علموں کی سمجھ سے بالاتر ہے اور اس کا اسکول کے نصاب کے ساتھ براہ راست تعلق نہیں ہے۔
ترک وزیر تعلیم نے کہا کہ ’یہ ہمارا فرض ہے کہ جو کچھ بھی آج تک طالب علموں کو غلط پڑھایا جا چکا ہے اسے ٹھیک کریں، لہٰذا اسلامی قوانین کی کلاسوں اور بنیادی مذہبی لیکچرز میں جہاد کا سبق بھی شامل کیا جائے گا‘۔
مزید پڑھیں: ترکی میں تعلیمی اداروں سے 27 ہزار ملازمین برطرف
ترک وزیر تعلیم نے کمال اتاترک اور ان کی کامیابیوں کو ختم کرنے کے حوالے سے کچھ نہیں کہا لیکن نصاب کی تبدیلی میں انصاف، دوستی، ایمانداری اور حب الوطنی جیسی اہم اقدار پر زور دیا۔
یاد رہے کہ دنیا کے دو بڑے مذہب اسلام اور عیسائیت چارلس ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ دونوں مذاہب کا ماننا ہے کہ خداوند تعالیٰ نے پوری کائنات اور جانداروں کو 6 دنوں میں تخلیق کیا۔
ترک پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی کے رکن پارلیمنٹ مصطفیٰ بالبے کا کہنا تھا کہ ایسی تجاویز جن کے مطابق نظریہ ارتقاء ان (طالب علموں) کی سمجھ سے بالا تر ہے، طالب علموں کی توہین ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان فتح اللہ گولن کے تمام ادارے بند کرے، ترکی
دوسری جانب ایجوکیشن اور سائنس ورکرز کی یونین کے چیئرمین اتاترک مہمت بالک نے بھی طیب اردگان کی حکومت کے اس اقدام کی مذمت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ اصول ارتقاء پڑھانے پر پابندی اور تمام اسکولوں میں عبادت کی جگہ مختص کرنے والے اقدامات سیکولرزم کے اصولوں اور تعلیم کے سائنسی اصولوں کو تباہ کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: ترک عملے کی بے دخلی، والدین اور طلبہ پریشان
اتاترک مہمت بالک کا کہنا تھا کہ نصاب میں ہونے والی تبدیلیاں اختلافی نظریات کو ختم کرنے کا اقدام ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نوجوان جو سوال کرتے ہیں اس سے حکومت ڈرتی ہے۔
نیا نصاب ترکی میں تعلیمی سال 2017 کے آغاز سے نافذ العمل ہوگا جبکہ ملک میں بڑھتے ہوئے ’امام خطیب‘ اسکول بھی اس نصاب کو اپنانے کے پابند ہوں گے۔
طیب اردگان کی جماعت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک امام خطیب اسکولوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جبکہ ترک صدر خود بھی اسی اسکول سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔
یہ خبر 19 جولائی 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی
تبصرے (1) بند ہیں