فون بوتھ لائبریری: سوئیڈن میں کتب بینی کا شوق تو دیکھیے
سوئیڈن کا قدیم دارالحکومت سگتونا ایک بہت خوبصورت قصبہ ہے اور موجودہ دارالحکومت اسٹاک ہوم سے شمال کی جانب پچاس کلومیٹر دور واقع ہے۔ سوئیڈن کا سب بڑا ہوائی اڈہ بھی سگتونا کی بلدیاتی حدود میں شامل ہے۔
سیاحوں کی ایک بڑی تعداد ہر سال اس قصبے کا رخ کرتی ہے۔ مقامی حکومت نے یہاں کے تاریخی ورثے کو محفوظ کر رکھا ہے اور یہاں ایک چھوٹا سا میوزیم بھی ہے جو اس قصبے کی سیر کرنے والوں کی توجہ کا مرکز ہوتا ہے۔
یہاں اور بھی کئی قابل دید جگہیں ہیں جن میں قدیم بازار بھی ایک ہے جو آج بھی ماضی کی تاریخ کا شاہد ہے، لیکن جس بات نے اس بلاگ کو لکھنے پر مجبور کیا وہ یہاں کا پرانا ٹیلی فون بوتھ ہے۔ ٹیلیفون اور انٹرنیٹ کے شعبے میں تیز رفتار ترقی نے اب ٹیلی فون بوتھ کی اہمیت ماند کردی ہے۔
1980 میں سوئیڈن میں 44 ہزار ٹیلی فون بوتھ تھے جو اب معدوم ہو چکے ہیں۔ اب کوئی بھی ٹیلی فون بوتھ استعمال نہیں کرتا، ہاں اکا دکا ٹیلی فون بوتھ شاید کسی ہوائی اڈے یا بڑے ریلوے اسٹیشن پر موجود ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ زیر استعمال نہ ہونے کی وجہ سے اب انہیں تمام جگہوں سے ہٹا دیا گیا ہے لیکن سگتونا کی مقامی حکومت نے اسے ہٹانے کے بجائے ایک چھوٹی سی لائبریری میں بدل دیا ہے اور اندر رکھے شیلف میں عام دلچسپی کے موضوعات کی چند کتابیں رکھ دی ہیں۔
غالباً یہ دنیا کی سب سے چھوٹی لائبریری ہے جو چوبیس گھنٹے کھلی رہتی ہے اور جہاں کوئی لائبریرین یا عملہ نہیں۔ لوگ خود آتے ہیں، بغیر کسی اندارج کے اپنی مرضی کی کتاب لے جاتے ہیں اور پڑھنے کے بعد خود ہی واپس رکھ جاتے ہیں۔
یہ لائبریری سگتونا کے بازار کے مرکزی مقام پر واقع ہے اور ساتھ ایک چھوٹا سا پارک بھی ہے جہاں کئی لوگ بیٹھ کر مطالعے کی اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔
کتابیں پڑھنے کا شوق یہاں کے لوگوں کی گھٹی میں ہے اور بچپن ہی سے بچوں کو کتابیں پڑھنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اسکولوں میں بچوں میں کتابیں پڑھنے کا مقابلہ ہوتا ہے اور جو جماعت سب سے زیادہ کتب کا مطالعہ کرے اسے سند امتیاز سے نوازا جاتا ہے۔
گھروں، دفتروں، انتظار گاہوں، ہسپتالوں، ہوٹلوں غرض ہر جگہ پڑھنے کے لیے کتابیں موجود ہوتی ہیں۔ کئی خریداری کے مراکز اور بڑی دوکانوں میں ایک بک شیلف میں کچھ کتابیں رکھ دی جاتی ہیں اور ساتھ نوٹس پر لکھا ہوتا ہے کہ اپنی پسند کی کتاب پڑھنے کے لیے لے جائیں اور اگر چاہیں تو اپنی کوئی کتاب دیگر پڑھنے والوں کی نذر کر دیں، یوں علم کے فروغ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
سوئیڈن میں تمام مقامی حکومتوں نے اپنی بلدیاتی حدود کے اہم مقامات پر پبلک لائبریریاں قائم کی ہوئی ہیں جس سے ہر ایک بلامعاوضہ مستفید ہوسکتا ہے۔
آپ کسی بھی زبان میں کسی بھی کتاب کی فرمائش کریں، ادارہ اسے مہیا کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ پہلے تو پورے ملک میں متعلقہ کتاب کو تلاش کیا جاتا ہے اور اگر پھر بھی نہ مل سکے تو تمام نارڈک ممالک سے اور بعض صورتوں میں کسی بھی یورپی ملک سے کتاب حاصل کرکے متلاشی کو دی جاتی ہے اور کوئی معاوضہ نہیں لیا جاتا۔
اسٹاک ہوم کاؤنٹی 24 ہزار جزائر پر مشتمل ہے۔ جن جزائر پر آبادی ہے وہاں کے رہنے والوں کی علمی پیاس بجھانے کے لیے کشتیوں پر لائبریاں قائم کی گئیں جو باقاعدگی سے چکر لگا کر کتابیں بہم پہنچاتی ہیں۔
سوئیڈش قوم نے علم کی بنیاد پر ہی دنیا میں عزت اور بلند مقام حاصل کیا ہے اور یہ رتبہ دلانے والے اپنے محسنوں کو اس قوم نے بھی نہ صرف یاد رکھا ہے بلکہ عزت افزائی کے لیے بیس، پچاس اور دو سو کرونا کے کرنسی نوٹوں کے سرورق پر ادیبوں اور مصنفین کی تصاویر چھاپی گئی ہیں جبکہ پس ورق میں ملک کے اس حصے کی تصویر دی گئی ہے جہاں سے ان کا تعلق ہے۔
سوئیڈن کی عالمی شہرت یافتہ بچوں کے ادیب آسترد لند گرین کے نام پر ہی یورپ میں بچوں کا سب سے بڑا ہسپتال بھی اسٹاک ہوم میں قائم ہے۔ اسی مصنفہ کے نام پر ہر سال دنیا بھر میں بچوں کے ادب کا سب سے بڑا انعام دیا جاتا ہے جس کی مالیت چھ کروڑ روپے بنتی ہے۔ یوں یہ عالمی سطح پر ادبی خدمات کے لیے دیا جانے ولا دوسرا یا تیسرا سب سے بڑا انعام ہے۔
ہر سال فروری کے آخری ہفتے میں ملک بھر میں کتابوں پر رعایتی سیل لگائی جاتی ہے اور خریداروں کا ہجوم ہمارے ہاں کے جمعہ بازاروں کی رش یاد دلا دیتا ہے۔ یہ سلسلہ 1920 سے جاری ہے۔ دنیا میں عزت اور وقار اسی قوم کو حاصل ہوتا ہے جو علم کی اہمیت کو جان لیتی ہے۔ سوئیڈن میں کسی بھی گھر چلے جائیں آپ کو وہاں ایک لائبریری ضرور ملے گی۔
فن لینڈ کے باشندے تو سوئیڈش لوگوں سے بھی زیادہ 'پڑھاکو' ہیں۔ وہاں نہ صرف کتابوں کی دکانیں آباد ہیں بلکہ کتابیں خریدنا اور پڑھنا ان کی زندگی کا لازمی جز ہے۔
پاکستان میں کتابوں کی دکانیں کم ہوتی جا رہی ہیں۔ ہمارے لوگ دو سو روپے کی کتاب خریدنا گوارا نہیں کرتے لیکن دو ہزار کا جوتا خرید لیتے ہیں۔
ایک جملہ کہیں پڑھا تھا جو ہے تو ذرا سخت لیکن حقیقت پر مبنی ہے کہ 'جو قوم کتابوں کی بجائے جوتوں کو اہمیت دے تو پھر جوتے ہی اس کا مقدر ہوتے ہیں۔'
تبصرے (10) بند ہیں