سجل اور عدنان کی فلم 'مام' تاثر جمانے میں کامیاب
پاکستانی اداکاروں عدنان صدیقی اور سجل علی کی پہلی بولی وڈ فلم 'مام' ریلیز کردی گئی، اس فلم میں سری دیوی، نواز الدین صدیقی اور اکشے کھنہ جیسے بڑے بولی وڈ اسٹارز بھی موجود ہیں۔
اور خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ فلم اپنا تاثر قائم کرنے میں کامیاب رہی ہے، سری دیوی نے پاکستانی اداکاروں کے لیے ایک خصوصی پیغام بھی انسٹاگرام پر پوسٹ کیا جو پاکستان میں فلم کے پریمیئر کے موقع پر نشر بھی ہوا۔
اس پیغام میں سری دیوی نے بتایا کہ وہ اپنے پاکستانی ساتھیوں کو کس طرح یاد کررہی ہیں اور یہ فلم ان کے بغیر ایسی کبھی نہ ہوتی۔
فلم انتقام کے جذبے پر مبنی ہے مگر اتنی سادہ بھی نہیں۔
فلم کی کہانی کچھ اس طرح ہے :
جب ان کی زندہ دل بیٹی آریا (سجل علی) پر ویلنٹائن ڈے پر چار مرد حملہ کرتے ہیں اور مرنے کے لیے چھوڑ جاتے ہیں تو بائیولوجی ٹیچر دیوکی سبروال (سری دیوی) اور ان کے شوہر آنند (عدنان صدیقی) کی زندگی تہہ و بالا ہوجاتی ہے۔
اس کے بعد جو ہوتا ہے وہ یہ یاد دلاتا ہے کہ قانونی نظام اتنا بھی اچھا نہیں جتنا ہم توقع کرتے ہیں، تو اُس وقت کیا ہو جب عدالتی عمل آپ کے یقین کو دھوکا دے جائے؟ اگر آپ دیوکی جیسے ہوں تو معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور انتقام کے راستے پر نکل جاتے ہیں۔
فلم کو دیکھنے کی 5 وجوہات
مضبوط خاتون سرپرست
فلم 'مام' سری دیوی کی 300 ویں فلم اور 'انگلش ونگلش' کے 5 برس بعد بڑی اسکرین پر واپسی ہے جو کہ واقعی بہترین ہے، فلم میں کہانی کا ہر موڑ اور لمحہ آپ سے سوال کرتا ہے کہ اس طرح کے حالات میں آپ کیا کرتے۔ یہ دیکھنا بھی اچھا لگا کہ ایک خاتون انصاف کے حصول کے لیے حرکت میں آتی ہے۔
اچھی کاسٹ
'مام' کی کاسٹ کافی متاثر کن ہے۔ ہاں سجلی علی اور عدنان صدیقی نے اپنے کرداروں کو اچھے طریقے سے نبھایا، مگر آخر ہم نے اکشے کھنہ کو زیادہ کیوں نہیں دیکھا؟ ان کا کردار بطور انسپکٹر میتھیو فرانسس یادگار اور کہانی میں فٹ بیٹھا جبکہ نواز الدین صدیقی نے پرائیویٹ جاسوس ڈی کے روپ میں دیکھنے والوں کو کچھ کامیڈی فراہم کی۔
سینما فوٹوگرافی
انائے گوسوامی کی سینما فوٹوگرافی بہترین رہی، فلم میں 90 کی دہائی کے انداز کو برقرار رکھا گیا اور جس طرح گوسوامی نے دیکھنے والوں کی توجہ کو کنٹرول کیا، وہ تعریف کے قابل ہے۔ انہوں نے لائٹنگ اور لینس کو اس طرح استعمال کیا ہے کہ فلم آپ کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہے۔
کہانی کے غیرمتوقع موڑ
ویسے تو ریپ اور انتقام پر مبنی کئی فلمیں ہیں، جو ایک مخصوص انداز سے آگے بڑھتی ہیں، اس فلم میں بھی ایسا ہی ہے، مگر اس میں کچھ غیر متوقع موڑ بھی آتے ہیں جو پلاٹ کو اس طرح آگے بڑھنے میں مدد دیتے ہیں کہ دیکھنے والا نظریں ہٹا نہیں پاتا۔
معاشرے سے متعلق
ڈائریکٹر روی ادیور نے خواتین کو ہراساں کرنے، انہیں تنگ کرنے اور ظلم کا نشانہ بننے والی خواتین کو پیش آنے والے تجربات اور تلخ حقائق کو مہارت سے پیش کیا ہے۔ خاندان کے تعلق کو بھی معاشرتی نقطہ نظر سے پیش کیا گیا ہے اور ہر ماں، ہر باپ اور ہر نوجوان اس کہانی سے جڑ سکتا ہے۔