روپے کی قدر میں کمی سے کیا فائدہ اور نقصان ہوتا ہے؟
نئے مالی سال کے پہلے کاروباری دن اسٹاک مارکیٹ ایسی گری کہ بڑے بڑے اس کی لپیٹ میں آگئے۔ ایک ہی دن میں اسٹاک مارکیٹ 1800 سے زائد پوائنٹس خسارے کا شکار ہوئی۔ ابھی اسٹاک مارکیٹ کے خسارے ہی سے نہ سنبھلنے پائے تھے کہ پاکستان کی انٹربینک مارکیٹ (جہاں ڈالر کی خرید و فروخت ہوتی ہے) میں زلزلہ آگیا اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 3 اعشاریہ 1 فی صد کمی کا شکار ہوگئی۔ ایک دن پہلے جو ڈالر 104 روپے 90 پیسے میں دستیاب تھا، وہ ڈالر 109 روپے کی قیمت پر بھی نہیں مل رہا تھا۔
درآمد کنندگان اس صورتحال سے سخت پریشان تھے اور دعا کر رہے تھے کہ اسٹیٹ بینک انٹربینک مارکیٹ میں مداخلت کرے اور روپے کی قدر گرنے نہ دے تو دوسری طرف برآمد کنندگان خوش تھے اور دعا گو تھے کہ اسٹیٹ بینک روپے کی قدر میں کمی ہونے دے۔ ادھر اوپن مارکیٹ میں غیر ملکی کرنسی کا تبادلہ کرنے والی ایکسچینج کمپنیز تذبذب کا شکار نظر آئیں۔ اس تمام صورتحال میں کرنسی مارکیٹ کا ریگولیٹر اسٹیٹ بینک مارکیٹ کے اختتام تک خاموش ہی رہا۔
پڑھیے: انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر 108 روپے کا ہوگیا
اسٹیٹ بینک کے ترجمان عابد قمر سے دن میں کئی مرتبہ رابطہ کیا مگر انہوں نے اس حوالے سے کوئی بھی بات کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ شام تک انتظار کریں۔ اس دوران اسلام آباد سے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا بیان سامنے آگیا جس میں انہوں نے روپے کی ناقدری پر سخت ردعمل کا اظہار کیا۔
جاری شدہ بیان میں لکھا گیا تھا کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کابینہ ڈویژن میں ایک ہنگامی اجلاس کی صدارت کی جس میں بدھ کے روز روپے کی قدر میں کمی کا جائزہ لیا گیا۔ وزیر خزانہ نے روپے کی قدر میں کمی کا نوٹس لیتے ہوئے اپنے گہرے تحفظات اور مایوسی کا اظہار کیا۔ وزیر خزانہ کے بقول سیاسی ماحول کا فائدہ اٹھا کر بعض افراد اور بینک ڈالر کی قدر میں مصنوعی اضافہ کررہے ہیں۔ اسحاق ڈار نے روپے کی قدر کم کرنے والے افراد کی نشاندہی کرنے اور ان کے خلاف ایکشن لینے کا عندیہ دیا۔
وزیر خزانہ کے بیان کے کچھ ہی دیر بعد اسٹیٹ بینک نے ایک بیان جاری کردیا جس میں اس انٹربینک مارکیٹ میں پاکستانی روپے اور امریکی ڈالر کی شرحِ مبادلہ (ایکسچینج ریٹ) میں 3 اعشاریہ 1 فیصد کی تبدیلی کو درست قرار دیتے ہوئے اپنی آشیر باد دی۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا تھاکہ بدھ کے روز ایک ڈالر 108 روپے 25 پیسے کا ہوگیا ہے۔ بیرونی کھاتوں کا خسارہ بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے انٹر بینک مارکیٹ کی شرحِ مبادلہ میں بھی تبدیلی ہوئی ہے۔
اسٹیٹ بینک کا نقطہ نظر یہ ہے کہ شرحِ مبادلہ میں یہ کمی بیرونی کھاتوں میں ابھرتے ہوئے عدم توازن کا تدارک اور ملک میں ترقی کے امکانات کو مستحکم کرے گی۔ اسٹیٹ بینک سمجھتا ہے کہ موجودہ شرحِ مبادلہ معاشی حقیقت سے بڑی حد تک ہم آہنگ ہے اور یہ کہ اسٹیٹ بینک زر مبادلہ منڈیوں کے حالات کا بغور جائزہ لیتا رہے گا اور مالی منڈیوں میں استحکام کو یقینی بنانے کے لیے تیار ہے۔
لیجیے ڈار صاحب، آپ کو وہ ادارہ مل گیا جس نے ڈالر کی قدر میں اور روپے کی ناقدری میں اضافہ کیا ہے۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ ڈار صاحب فون اٹھا کر قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک ریاض ریاض الدین سے ہی بات کرلیتے تو اہم پالیسی معاملے پر یہ تضاد سامنے نہیں آتا۔ روپے کی قدر میں کمی کے حوالے سے عالمی مالیاتی فنڈ یا آئی ایم ایف جون کے وسط میں ہی پاکستان کو مشورے سے نواز چکا تھا۔
پڑھیے: روپے کی قیمت کو مستحکم رکھنے کا فیصلہ
آئی ایم ایف کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا پاکستانی معیشت کے بارے میں ایک جائزہ جاری ہوا۔ جس میں عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان کی معیشت پر بھر پور تبصرہ کیا۔ اس جائزے میں عالمی مالیاتی فنڈ نے پاکستان حکام کو مشورہ دیا کہ وہ شرحِ مبادلہ کو انتظامی طریقے سے کنٹرول کرنے کے بجائے اس کو بتدریج کم ہونے دیں۔
آئی ایم ایف نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ عالمی سطح پر ایندھن کے مہنگا ہونے سے ملک میں مہنگائی بڑھ سکتی ہے جس سے ایکسچینج مارکیٹ پر دباؤ آئے گا۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہونے سے بیرونی کھاتوں کے خسارے (جس طرف اسٹیٹ بینک نے بھی اشارہ دیا ہے) میں کمی ہوگی۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے بنیادی شرح سود (جس پر اسٹیٹ بینک سے کمرشل بینک قرضہ لیتے ہیں) کو بھی بڑھانے کا مشورہ دیا تھا۔
مگر روپے کی قدر میں کمی یا اضافہ ملکی معیشت کے لیے کس قدر اہم ہے اور اس کی تبدیلی سے معیشت میں کیا تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
موجودہ حکومت کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سال 2013 میں روپے کی قدر میں تیزی سے کمی ہوئی اور ایک ڈالر ایک سو دس روپے کی سطح تک پہنچ گیا، جس پر شیخ رشید احمد نے دعویٰ کیا کہ حکومت اگر ڈالر کو واپس ایک سو روپے سے کم کی سطح پر لے آئی تو وہ مستعفی ہوجائیں گے۔
شیخ رشید کو اسمبلی سے باہر کرنے کے لیے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جان توڑ کوشش شروع کردی اور روپے کی قدر کو چند دنوں میں دوبارہ ایک سو روپے سے کم کی سطح پر لے آئے۔ اسحاق ڈار صاحب کی کوششیں کسی کام نہیں آئیں اور شیخ صاحب اپنے فیصلے سے مکر گئے۔
مگر اس کے بعد حکومت کی جانب سے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر پر سخت نگرانی کی گئی۔ اور بیرونی وسائل کی آمد کی وجہ سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 102 روپے سے لے کر 104 روپے کے درمیان ہی رہی۔
کسی بھی ملک کی کرنسی کی قدر میں اگر استحکام ہوتا ہے، یا اس کی قدر میں اضافہ یا کمی ہوتی ہے، تو اس کے ملکی معیشت پر اثرات مختلف طریقے سے مرتب ہوتے ہیں۔ اور اس بات کا فیصلہ ملک کے پالیسی سازوں کو کرنا ہوتا ہے کہ انہیں کرنسی کو مستحکم رکھنا ہے، مضبوط رکھنا ہے، یا کمزور رکھنا ہے، اور اس سے انہوں نے کون سے اہداف حاصل کرنے ہیں۔
جب مصنوعات، خدمات، اور سرمائے کی عالمی سرحدوں میں آزادنہ نقل و حرکت ہو تو متحرک اور لچکدار شرح مبادلہ کے ذریعے ہر ملک کی کرنسی کی طلب و رسد کو مارکیٹ میں رواں رکھا جاتا ہے۔ مگر اس فلوٹنگ شرحِ مبادلہ یا متحرک شرح مبادلہ کے نظام میں کرنسی کی قدر میں اضافہ اور کمی ہوتی رہتی ہے۔
مستحکم شرحِ مبادلہ
ماہرین معاشیات کے مطابق کسی بھی ملک کی کرنسی میں طویل مدتی استحکام اس پر مثبت اور منفی دونوں طرح سے اثر انداز ہوتا ہے۔ کرنسی کی قدر میں طویل مدت تک استحکام اس ملک میں بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے بہت اہم ہے۔ کیوں کہ وہ اس ملک میں سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ ایک خاص مدت تک اپنے منافع ایک خاص سطح پر حاصل کرسکتے ہیں۔ مگر طویل مدت میں کرنسی کے استحکام سے ملک میں افراط زر کے بڑھنے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔
مگر شرح مبادلہ کو مستحکم رکھنے کے لیے افراط زر کو بھی کم ترین سطح پر مستحکم رکھنا ضروری ہوتا ہے، بصورتِ دیگر ملک میں موجود غیر ملکی زرمبادلہ ذخائر پر منفی اثرات پڑتے ہیں اور ان میں کمی ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ پاکستان میں دیکھا جائے تو گزشتہ چند سال سے افراط زر کم ترین اور بنیادی شرح سود بھی کم ترین سطح پر ہے۔ جس کی وجہ سے حکومت اس قابل ہوئی ہے کہ شرح مبادلہ کو ایک محدود دائرے میں متحرک اور مستحکم رکھ سکے۔
پڑھیے: روپے کی قدر میں کمی کے باوجود اسٹاک مارکیٹ میں توازن
اگر پاکستان کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان نے پاک چین اقتصادی راہدری پر عملدرآمد شروع ہونے سے اب تک روپے کی قدر کو مستحکم رکھا ہوا ہے جس سے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والی چینی کمپنیوں کو فائدہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ سی پیک کے منصوبوں کے لیے بڑے پیمانے پر مشینری کی درآمد بھی ہو رہی ہے اور مستحکم شرح مبادلہ سے درآمدات مہنگی نہیں ہوتیں۔
ماہرین یہی خیال کررہے ہیں کہ حکومت نے شرح مبادلہ کو اسی لیے کئی سال تک مستحکم رکھا ہے کہ بڑے پیمانے پر مشینری کی درآمد کی جارہی تھی۔ اور اب درآمد کا یہ عمل تقریباً مکمل ہوگیا ہے۔ اور سی پیک کے بجلی کی فراہمی سے متعلق متعدد منصوبے ستمبر 2017 تک مکمل ہو رہے ہیں۔
موجودہ حکومت کے قیام کے بعد سے اگر دیکھا جائے تو مشینری گروپ میں درآمد تیزی سے بڑھی ہے۔ سال 2013کے اختتام پر مشینری گروپ کی مجموعی درآمد 4ارب ڈالر سے کچھ زائد تھی جو کہ سال 2017 کے گیارہ ماہ میں 7 ارب 11 کروڑ ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔
شرح مبادلہ میں اضافہ
کسی بھی ملک کے شرح مبادلہ میں اگر اضافہ ہو تو یہ عمل اس ملک کی مستحکم معاشی صورتحال کو اجاگر کرتا ہے۔ شرح مبادلہ میں اضافہ اس بات کا بھی غماز ہوتا ہے کہ اس ملک میں مہنگائی دیگر ملکوں کے مقابلے میں مستحکم ہے، یا کم ہے اور لوگوں کی خریداری کی طاقت اچھی اور مستحکم ہے۔
شرح مبادلہ میں اضافہ کرنے سے اس ملک کی درآمدات سستی ہوجاتی ہیں مگر برآمدات پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے شیخ رشید سے استعفی لینے کے لیے روپے کی قدر کو ڈالر کے مقابلے میں مضبوط کیا تھا تو برآمد کنندگان نے بہت شور مچایا تھا کیوں کہ ان کو برآمد میں شدید نقصان اٹھانا پڑاتھا۔
روپے کی قدر میں اضافے اور اس کو بلند ترین سطح پر مستحکم رکھنے سے پاکستان کی برآمدات پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور پاکستان کی برآمدات 25 ارب ڈالر سے کم ہو کر 19 ارب ڈالر کی سطح پر آگئی ہیں.
ایک طرف برآمدات میں کمی ہورہی ہے تو دوسری طرف درآمدات تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ سال 2012 میں مجموعی درآمدات 40 ارب ڈالر تھیں جو کہ اب 43 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہیں۔
شرح مبادلہ میں کمی
شرح مبادلہ میں کمی متعدد وجوہات کی بناء پر ہوسکتی ہے۔ بنیادی معاشی اعشاریوں میں عدم استحکام، سیاسی عدم استحکام، سرمایہ کاری کے رسک، جاری کھاتوں کا بڑھتا خسارہ، مہنگائی کی شرح (افراطِ زر)، اور دیگر وجوہات کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔
اس کے علاوہ ملک اپنی کرنسی کی قدر کو اس لیے بھی کم کرتے ہیں کہ وہ تجارتی خسارے کو کم کرسکیں، مگر بہت تیزی سے کرنسی کے گرنے سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو نقصان ہوتا ہے اور وہ اپنی سرمایہ کاری نکال سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ کرنسی کی قدر کم ہونے سے غیر ملکی قرضے بھی مہنگے ہو جاتے ہیں۔ اگر پاکستانی روپے کی قدر میں 3 فی صد سے زائد کی کمی ہوئی ہے تو غیر ملکی قرضوں میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوجائے گا۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق پاکستان کے مجموعی غیر ملکی قرضوں کا حجم 77ارب 61 کروڑ ڈالر ہے۔ روپے کی قدر میں کمی سے ڈالر میں تو قرضے اپنی جگہ مستحکم ہیں مگر روپے میں منتقل ہونے پر قرضوں کا حجم بڑھ گیا ہے۔
پاکستانی روپے کی قدر میں کمی سے اسی لیے برآمد کنندگان بہت خوش نظر آرہے ہیں۔ اور ان کا خیال ہے کہ وہ عالمی مارکیٹ میں اپنی کرنسی کی قدر میں کمی کی بنیاد پر زیادہ بہتر مارجن پر مصنوعات کی فروخت کرسکیں گے۔ اس حوالے سے 17جولائی کو ایٹما کراچی آفس میں ہونے والی پریس کانفرنس میں بھی ٹیکسٹائل ملز مالکان نے روپے کی قدر میں کمی کا مطالبہ کیا تھا۔
رواں کھاتے اور ان کا خسارہ (Current Account Deficit)
کوئی بھی ملک دیگر ملکوں کے ساتھ تجارت کرنے کے ساتھ ساتھ ان ملکوں کے ساتھ دیگر لین دین بھی رکھتا ہے۔ جس میں غیر ملکی اور عالمی اداروں کے قرضے، اور دیگر لین دین بھی شامل ہوسکتا ہے۔ اگر تجارت میں خسارہ ہورہا ہو تو اس خسارے کو دیگر ذرائع سے پورا کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے کیس میں سمندر پارپاکستانیوں کا بینکاری نظام کے ذریعے بھجوایا ہوا زرمبادلہ اہم ہوتا ہے۔
پاکستان میں اگر زرمبادلہ کمانے کا واحد اور بڑا ذریعہ ہے تو وہ یہی ترسیلات زر ہیں۔ پاکستان نے ان ترسیلات میں اضافے کے لئے متعدد انتظامی اور پالیسی اقدامات کیے ہیں جس کی وجہ سے مالی سال 2016 تک ترسیلات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ مگر 2017 میں خلیجی ملکوں میں مالی اور سیاسی بحران کی وجہ سے پاکستانیوں کی بڑے پیمانے پر بے روزگاری نے ترسیلات زر پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں جس کی وجہ سے ترسیلات زر میں کمی ہورہی ہے۔ اور مالی سال 2017 میں اوسطاً دو فی صد ترسیلات زر میں کمی ہوئی ہے۔
ایک طرف پاکستان کی برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافے کی وجہ سے تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف ترسیلات زر میں کمی ہورہی ہے جبکہ پاکستان کو تجارتی خسارے کو پر کرنے کے علاوہ عالمی سطح پر لیے گئے قرضوں کی بھی واپسی کرنی ہے۔ اس تمام صورتحال میں رواں کھاتوں کے خسارے میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق سال 2017 میں جنوری سے مئی کے دوران کرنٹ اکاونٹ خسارہ 6 ارب 11 کروڑ ڈالر ہوگیا ہے جبکہ سال 2016 میں یہ 2 ارب ڈالر تھا۔
اگر تجارت اور دیگر بیرونی ادائیگیوں کا خسارہ بڑھے گا تو پاکستان کو اپنے زرمبادلہ ذخائر میں سے ادائیگی کرنی ہوگی جس کی وجہ سے زرمبادلہ ذخائر میں کمی ہوگی۔ اور یہ کمی جس قدر تیزی سے ہوگی ملک کی عالمی تجارتی اور معاشی ساکھ اسی قدر متاثر ہوگی۔ پاکستان کا ہدف ہے کہ کم از کم چار ماہ کے درآمدی بل کے مساوی زرمبادلہ ذخائر رکھے جائیں۔ عالمی مالیاتی فنڈ، عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، اسلامی ترقیاتی بینک کے علاوہ دوست ملکوں سے قرض اور عالمی مارکیٹ سے کمرشل قرض حاصل کر کے زرمبادلہ ذخائر کو چار ماہ کی درآمدات کے مساوی پر مستحکم رکھا ہوا ہے۔
اوپر بیان کی گئی تمام بحث کی روشنی میں یہ بات اہم ہے کہ پاکستان کی معیشت کے موجودہ حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ بات بہتر ہے کہ کرنسی کی شرح مبادلہ کو بتدریج اور آہستہ آہستہ کم کیا جائے تاکہ پاکستان درآمدات میں کمی کرتے ہوئے برآمدات کو بڑھا سکے اور ملک میں افراط زر کو بھی قابو میں رکھ سکے۔
پاکستان سے قبل ہندوستان، بنگلہ دیش اور دیگر ملکوں نے سال 2017 کے دوران اپنی کرنسیوں کی قدر کو کم کیا ہے تاکہ کم ہوتی برآمدات کو بڑھایا جاسکے اور ملکی زرمبادلہ ذخائر پر پڑنے والے بوجھ دور اور کمی کو روکا جاسکے۔
اس سب میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملکی کرنسی میں کمی کو جان اور ایمان کا مسئلہ نہ بنایا جائے اور اس کو خالص معاشی نقطہ نظر سے ملک کے معروضی معاشی حالات پر دیکھا جائے۔
تبصرے (3) بند ہیں