وہ بچپن کی عیدیں گئیں تو گئیں کہاں؟
بچپن کی عید کی یاد مجھے بہت مقدس لگتی ہے۔ جس طرح ہم کسی مزار سے حاصل کیے ہوئے تبرکات، کسی پیارے کے دیے ہوئے تحفے، اپنی پہلی تنخواہ کی رسید ہم ہمیشہ سنبھال کر رکھنا چاہتے ہیں، اسی طرح ہم اپنے کم سنی کے دنوں کی عید کو ہمیشہ ذہن اور دل کے قریب رکھنا چاہتے ہیں۔
وہ عیدیں جب ہم سب بے فکرے سے تھے، کاٹن سے لے کر گوٹا کناری والے کپڑوں کی سلائی کی فکر یا تو امی کو ہوتی تھی یا دادی کو، ہماری صرف یہی فکر ہوتی تھی کہ کب کپڑے سلیں گے اور ہم انہیں زیب تن کر لیں گے۔
ہاں اتنا بھول پن ضرور ہوتا تھا کہ اپنے کزنز کے عید کے ملبوسات تو کبھی نہیں دیکھ سکتے تھے، البتہ ان کے یہ کہنے پر کہ 'ہم اپنے بھی دکھا دیں گے'، ہم اپنے عید کے کپڑے دو تین دن پہلے ہی نمائش کے لیے پیش کر دیا کرتے تھے، اور عید کے دن منہ بسور رہے ہوتے تھے۔
چاند رات کو اتنا جاگنے کا رواج تو تھا نہیں، بس مہندی کے گول ٹیکوں یا مٹھی بھر مہندی لگوانے کی آس لیے باجی کے گرد چکر لگاتے، اور پھر زیادہ سے زیادہ ٹی وی پر لگنے والے کچھ گیت ہی سننے کو مل جاتے تھے۔ عید کا دن بھی بہت سادہ سا ہوتا تھا۔
صبح جاگتے ہی عیدی کا انتظار ہونے لگتا کہ نجانے کب ابو، دادا اور چچا نماز پڑھ کر آئیں گے اور عیدی ملے گی۔ اس وقت ملنے والے ان بالکل کرارے نوٹوں کے کاغذ کی تازہ خوشبو اب تک میرے ذہن میں موجود ہے۔
پڑھیے: ایک پردیسی کی عید کی روداد
حیرت تو اب تک اس بات پر ہوتی ہے کہ اس وقت کے پانچ یا دس روپے جو ہم سب بچوں کو بطور عیدی ملا کرتے تھے، شاید آج کل کے ہزاروں روپے بھی ان پانچ دس روپوں کی اہمیت کا مقابلہ نہیں کر سکتے، کیوں کہ ان میں خلوص اور اپنائیت ہوا کرتی تھی جس کا کوئی نعم البدل نہیں تھا۔
میری امی اور چچی رات کو ہی دہی بھلے، سویّاں اور لب شیریں تیار کر رکھ دیتیں کہ رمضان میں سحری کرنے کی وجہ سے صبح جلدی کھانے کی عادت ہو جاتی تھی اور ہم بھوک زیادہ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔
خیر صبح سے کھانے کا جو دور چلتا وہ شام تک جاری رہتا، کبھی خرّم بھائی کے دوست آ رہے ہیں تو کبھی گڑیا باجی کی سہیلیاں، اور کبھی ہم محلے میں اپنے دوستوں یعنی بچہ پارٹی کے ہمراہ سیر کرنے جا رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے ساتھ والے محلے میں کشادگی کی وجہ سے عید پر خصوصی عید بازار لگایا جاتا، ایک طرف جھولے ہوتے تو دوسری طرف پان والا آوازیں لگاتا۔ کہیں برگر بن رہے ہوتے تو کہیں نان ٹکی سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لیتی۔
چنا چاٹ اور قلفے گولے والے بھی کہیں پیچھے نہ رہتے۔ زمانہ اتنا سستا تھا کہ بارہ آنے کی ایک چنا چاٹ کی پلیٹ آجاتی اور ایک روپے کا پان، گویا جیسے عیدی کے پانچ روپے ہفت اقلیم سے کم نہ ہوتے تھے۔ ایک طرف لاٹری والا بھی بیٹھا ہوتا جسے کھیلنے سے کبھی پلاسٹک کا گھوڑا انعام میں ملتا تو کبھی گھومنے والی چرخی۔
لیکن اب میں سوچتی ہوں کہ شاید زندگی بھی اس گھومنے والی چرخی کی طرح گھوم گئی ہے ہم اتنے بور ہو چکے ہیں یا شاید اتنے مردہ دل کہ اب عید کی خوشی بھی ہمیں خوشی معلوم نہیں ہوتی۔ اب لوگ اپنے رشتہ داروں سے شاید عید کے عید بھی نہیں ملتے۔
مزید پڑھیے: بھائی یہ عید کارڈ کیا ہوتا ہے؟
اور اگر جائیں بھی تو بس دس دس منٹ کھڑے کھڑے پوچھ لینا کہ زندہ تو ہو، یا کبھی اگر کوئی پورا سال نہ آئے تو عید کے دن چھے چھے گھنٹے آکر طویل نشست کا اہتمام کر لیا جاتا ہے۔ چاہے صاحب خانہ باقی مہمانوں کو وقت نہ دے سکیں اور خواہ بھوک کے مارے ان کی آنتیں قل ھو اللہ پڑھتی رہیں۔
اب کوئی جھولوں پر نہیں بیٹھتا شام کو پارکوں کا رخ کر لیا جاتا ہے یا ہوٹلوں میں کھانے کو ہی اولیت دی جاتی ہے۔ نوجوان نسل ہے تو وہ سارا دن سوشل میڈیا پر مصروف دکھائی دیتی ہے۔ اکثر لوگ تو چاند رات پر ہی اتنا جاگ چکے ہوتے ہیں کہ عید پر دوپہر چڑھے سے پہلے بیدار نہیں ہوتے۔
شیلٹر اور اولڈ ہومز کا حال بھی کم برا نہیں، اپنی اولاد کے لیے اپنی بھرپور جوانی تیاگ دینے والے یہاں کسی اپنے کے آنے کے منتظر ہوتے ہیں اور چاہتے ہوئے بھی اپنی پریشانیاں کسی کو نہیں بتا سکتے۔ یہ نہیں بتا سکتے کہ آج وہی بیٹا ان کا حال پوچھنے نہیں آ رہا جس کے پہلے قدم کے چلنے پر انہوں نے کتنی منتیں اور نیازیں دی تھیں، جس کے منہ سے پہلا لفظ سننے کو وہ بے تاب تھے اور آج آنکھیں انہیں دیکھنے کے لیے بے تاب ہیں۔
اگر دیکھیں تو اب عیدی کی بھی وہ خوشی نہیں رہی۔ اب ہزاروں میں بھی عیدی دے دی جائے تو خیال یہی ہوتا ہے کہ دوسروں کو دیکھ کر اپنے منہ پر بھی تھپڑ مار لیے جائیں اور عیدی دینے والے کو اتنی یا کم از کم اس کے قریب ترین عیدی دے کر یہ بتا دیا جائے کہ ہم بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ پہلے بچے پانچ روپے عیدی لے کر بھی ناقابلِ بیان خوشی محسوس کرتے تھے، لیکن اب تو ہزاروں روپے لے کر بھی داڑھ گیلی نہیں ہوتی۔
اس وقت عیدی صرف بڑوں کی بچوں کی جانب اپنائیت کی علامت ہوا کرتی تھی اور عیدی دینے میں نہ مقابلے بازی ہوتی تھی، اور نہ کم عیدی دینے والے رشتے داروں کو کمتر سمجھا جاتا تھا۔ لیکن آج عیدی کا مطلب بالکل بدل چکا ہے اور اگر بچوں کو توقع سے کم عیدی ملے تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں اور احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔
مزید پڑھیے: میری عید یادگار بنانے والی 80 مسکراہٹیں
عید پر ان محلے داروں کے گھر بھی نہیں جایا جاتا جن کا دروازہ بالکل سامنے ہوتا ہے اور تو اور حد تو یہ ہے کہ عید کے دن بھی یہ حساب رکھا جاتا ہے کہ اگر اس نے مجھے عید کی مبارکباد نہیں دی تو میں پہل کیوں کروں؟ اور اس طرح ایک اچھا خاصہ تعلق انا کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔
وقت تو ہر دور میں بدلتا ہی رہا ہے، لیکن گذشتہ دس سے پندرہ سالوں میں نفسانفسی اتنی بڑھ چکی ہے کہ ہمارے مذہبی اور ثقافتی تہوار بھی اس کی لپیٹ سے دور نہیں رہ سکے۔ کاش کہ بچپن کی عیدوں کی طرح اب کی عیدیں بھی یادگار ہوجائیں اور ان میں وہی اپنائیت اور گہماگہمی واپس آجائے۔
تبصرے (5) بند ہیں