قطر یا سعودی عرب، امریکا یا روس؟ پاکستان کس کس کو راضی کرے گا
پاکستان کے ہمسایہ ممالک اور خطے میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیاں خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہیں، خطے اور پاس پڑوس میں تیزی سے دوست اور حلیف تبدیل کیے جا رہے ہیں، عالمی بساط پر اس تیزی سے مہرے بڑھائے اور ہٹائے جا رہے ہیں کہ یہ برق رفتار تبدیلیاں حالات کو پیچیدہ سے پیچیدہ تر بنا رہی ہیں۔
ہندوستان اور افغانستان نے باہمی تجارت کے لیے نیا فضائی کارگو لنک 20 جون سے شروع کر دیا ہے جس کے تحت افغانستان سے پہلا کارگو طیارہ 50 لاکھ ڈالر کا سامان لے کر ہندوستان پہنچا۔ ہندوستان اس کارگو لنک کو افغانستان پر اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے استعمال کر رہا ہے اور ہندوستان نے افغانستان کو یقین دلایا ہے مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے مطابق کارگو لنک کو مزید بڑھایا جائے گا۔
دوسری طرف پاکستان اور افغانستان کے تعلقات مسلسل بگاڑ کا شکار ہیں۔ کابل، طالبان یا داعش کے ہر حملے کے بعد الزام پاکستان پر دھر رہا ہے، جبکہ اس طرف سے افغانستان بارڈر کو باڑ لگا کر مکمل طور پر محفوظ کرنے کا تازہ اعلان سامنے آیا ہے۔
دوسری طرف امریکی دفاعی صنعت نے نریندرا مودی کے دورہ واشنگٹن سے پہلے ہندوستان کے سامنے پرکشش پیشکشوں کا انبار لگا دیا ہے۔ ان میں سے سب سے بڑی پیشکش امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن کی طرف سے ہندوستانی کمپنی ٹاٹا گروپ کے ساتھ مل کر ہندوستان میں ایف سولہ طیاروں کی تیاری ہے، جس کے لیے مودی حکومت کی رضامندی درکار ہے۔ اس کے علاوہ لاک ہیڈ مارٹن کے مقابلے میں سوئیڈش کمپنی 'ساب' کی طرف سے بھی گرپن طیاروں کے بڑے آرڈر کے حصول کے لیے یہی پیشکش موجود ہے۔
پڑھیے: قطر بحران کے پیچھے اصل کہانی کیا ہے؟
لاک ہیڈ مارٹن اور ٹاٹا گروپ دونوں نے اس ممکنہ ڈیل کی تصدیق کی ہے، بھارت ڈیڑھ سو جنگی طیاروں کی خریداری کا خواہاں ہے اور لاک ہیڈ مارٹن ایف سولہ کی ڈیل طے پانے پر اس کی مکمل تیاری کا کام ہندوستان میں منتقل کر دے گا جس سے ہندوستان دنیا بھر میں ایف سولہ کی تیاری اور برآمد کا مرکز بن سکتا ہے۔ مودی کی طرف سے اس ڈیل پر آمادگی کا قوی امکان ہے کیوں کہ اسی طرح ہی 'میک ان انڈیا' کا نعرہ پورا ہو سکتا ہے تو دوسری طرف ٹرمپ کا 'بائے امریکن ہائر امریکن' کا ایجنڈا بھی پورا ہوتا ہے۔
اگر مودی کسی وجہ سے اس ڈیل پر رضامند نہیں ہوتے تب بھی ٹاٹا گروپ اور لاک ہیڈ مارٹن ایف سولہ طیاروں کے پارٹس مل کر تیار کرنے کے منصوبے پر متفق ہیں۔
ہندوستان کے وزیراعظم 26 جون کو امریکا کے دورہ پر پہنچیں گے، جہاں وہ امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے۔ ٹرمپ سے ملاقات میں ایٹمی تعاون، سیکیورٹی اور ڈیفنس ایجنڈے پر سرفہرست ہیں۔
مودی امریکا کی بڑی کمپنیوں کے سی ای اوز سے بھی ملیں گے تاکہ دوطرفہ تعاون بڑھانے کی نئی راہیں تلاش کی جا سکیں، جبکہ پاکستان کے لیے واشنگٹن سے تازہ خبر ٹرمپ کا پاکستان سے سخت رویہ اپنانے کا فیصلہ ہے، جس کے تحت نہ صرف ڈرون حملے بڑھائے جائیں گے بلکہ مالی امداد کم یا ختم کرنے کے ساتھ ساتھ نان نیٹو اتحادی کا اعزاز بھی واپس لیے جانے کے آپشن شامل ہیں۔
ایران کے ساتھ نہ چاہتے ہوئے بھی پاکستان کے تعلقات میں مسلسل بگاڑ آ رہا ہے۔ حالیہ بگاڑ کا آغاز ہندوستانی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور صدر حسن روحانی کے دورہ اسلام آباد میں کلبھوشن کا معاملہ اٹھائے جانے کے دعوے سے ہوا جس کی صدر روحانی نے سختی کے ساتھ تردید کی۔
اس کے بعد دونوں ملکوں کی سرحدوں پر چاند ماری کا عمل شروع ہوا اور تازہ پیشرفت بلوچستان کے اندر ایرانی ڈرون مارے جانے کا دعویٰ ہے۔ ایران نے چند ماہ پہلے الزام لگایا تھا کہ اس کے سرحدی علاقوں میں گڑ بڑ کرنے والے عسکریت پسند بلوچستان سے آپریٹ کر رہے ہیں اور ایران کے آرمی چیف نے حالیہ ہفتوں میں دھمکی دی تھی کہ ایران پاکستان کے اندر گھس کر کارروائی کر سکتا ہے۔
قطر کے خلاف سعودی قیادت میں ہونے والے اقدامات پر پاکستان ابھی تک واضح پالیسی نہیں اپنا سکا۔ وزیرِ اعظم نواز شریف ثالثی کے ارادے سے شاہ سلمان سے ملاقات کر کے آئے لیکن سرکاری سطح پر اس دورے کے نتائج سے قوم کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ دوسری طرف سے آنے والی اطلاعات کے مطابق شاہ سلمان نے ثالثی کی کوششوں کو اہمیت دینے کے بجائے لگی لپٹی رکھے بغیر صاف صاف پوچھا کہ پاکستان سعودیہ کے ساتھ ہے یا قطر کے ساتھ؟
اس صورت حال میں پاکستان کے اپنے اتحادی ایک بڑی کشمکش میں ہیں۔ سعودی عرب نے نہ صرف قطر کے خلاف جارحانہ سفارتی اقدامات کیے ہیں، بلکہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے اشارے بھی دے رہا ہے۔ سعودی، ایران کشیدگی بھی بڑھ رہی ہے اور سعودی عرب قطر کے معاملے پر ترکی کو بھی ترکی بہ ترکی جواب دے رہا ہے۔ اس سب کے دوران عرب دنیا کا غریب ترین ملک یمن بھی ہے، جس پر سعودی بمباری کا سلسلہ تھمنے کو نہیں آ رہا۔
مزید پڑھیے: کیا 'محفوظ پناہ گاہیں' صرف افغانستان میں ہیں؟
سعودی عرب کے ان اقدامات کے پیچھے ایک خوف چھپا ہے، وہی خوف جو تیل کی دولت سے مالا مال ہر خلیجی بادشاہت کو محسوس ہوتا ہے کہ امریکا کا ساتھ نہ رہا تو خطے میں موجود حریفوں سے کیسے نمٹا جائے گا؟ سعودی عرب ایک عرصے سے امریکا کی چھتری تلے پناہ لیے ہوئے تھا لیکن اوباما دور میں اسے امریکا کے رویے میں تبدیلی اور تنہائی کا احساس ہوا جب اوباما نے ایران کے ساتھ نیوکلیئر مسئلے پر ڈیل کی۔
ایٹمی مسئلے پر بڑی طاقتوں کے ساتھ سمجھوتے کے بعد ایران نے بھی خطے میں پاؤں پھیلاتے ہوئے عراق، شام اور لبنان میں مداخلت کی پالیسی اپنائی، جس نے سعودی عرب کے خوف کو بڑھاوا دیا کہ اب امریکا سعودی عرب کے تحفظ کو پہلے جیسی اہمیت نہیں دیتا۔
اگرچہ ٹرمپ نے سعودی عرب کو یقین دہانی کروانے کی بھرپور کوشش کی لیکن صدر بش کے بعد اوباما اور پھر اوباما کے بعد ٹرمپ کی پالیسیوں میں انتہائی بڑے تضادات کے بعد اب دنیا بھر میں امریکا کے حوالے سے حتمی رائے قائم کرنا مشکل ہے۔
امریکا اور سعودی عرب کے اتحاد کی ایک بڑی (اور شاید بنیادی) وجہ تیل تھا۔ سعودی عرب تیل کی قیمتوں میں استحکام کے لیے امریکا کا ساتھ دیتا رہا لیکن اب توانائی کے متبادل ذرائع کی وجہ سے تیل کی قیمتوں اور پیداوار میں بڑی تبدیلی مستقبل کے سودوں کے لیے ممکن نہیں رہی۔
ان حالات میں خلیج میں سفارتی جنگ مزید بڑھ سکتی ہے۔ خلیج کی اس کشیدگی میں سعودی قطر تنازع کی بنیادی وجوہات میں ایک شام کے حالات بھی ہیں جہاں روس، ایران اور امریکا نے حالیہ دنوں میں نئی سرخ لکیریں کھینچی ہیں۔
امریکا نے شامی فوج کا طیارہ مار گرایا جس کے بعد روس نے امریکا کو خبردار کیا ہے کہ اپنے آپریشنز کے علاقوں میں امریکا اور اس کے اتحادی طیاروں کو ممکنہ ہدف تصور کرے گا، دوسری طرف ایران نے بھی شام میں میزائل داغ کر اپنا کردار بڑھانے کا اعلان کر دیا ہے۔
شام میں تازہ کشیدگی دراصل داعش کی پسپائی کے بعد ممکنہ طور پر خالی ہونے والے علاقوں پر قبضے کی جنگ ہے۔ داعش کے زیرِ قبضہ رقہ کا علاقہ دو وجوہات کی بنا پر اہم ہے۔ ایک جنوبی رقہ کے تیل کے کنویں، دوسرا بغداد اور دمشق کے درمیان زمینی راستہ۔
ان دونوں وجوہات کی بناء پر روسی اتحادی ایران، شامی صدر بشارالاسد اور عراق کی ملیشیاؤں کی مدد سے اسٹریٹیجک اہمیت کے علاقے پر تسلط چاہتا ہے۔ روس کا مقصد خلیج سے امریکا کو نکال باہر کرنا ہے۔ ایران اور شام امریکا کو داعش کے علاقے سے ہٹا کر شام کے صحرا میں نئی جنگ میں پھسنانا چاہتے ہیں یا پھر نئی جنگ میں پھنسنے کا ڈراوا دے کر خطے سے نکلنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔
جانیے: قصہ دو جعلی خبروں کا، جنہوں نے خلیج میں آگ بھڑکا دی
ایران کو اگر روس کی مدد سے شام کے راستے بحیرہ روم تک رسائی ملتی ہے تو یہ اسرائیل کے لیے ڈراؤنا خواب بن سکتا ہے۔ یہی مجبوری ہے جو امریکا کو خطے میں فوجی کارروائی تک لائی۔
امریکا داعش کی پسپائی کے بعد خطے سے نکلنے کے لیے ابھی واضح حکمت عملی نہیں بنا پایا کہ جنگ کے بعد شام میں کس کی حکومت ہوگی، یا بشارالاسد کا کیا کیا جائے گا۔ یہ حالات خلیج میں آگ مسلسل بھڑکتے رہنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
ان حالات میں پاکستان جو امریکی کیمپ سے نکالے جانے کی صورت میں روس اور چین کے ساتھ توقعات وابستہ کیے ہوئے ہے اور ترکی کے ساتھ تعلقات کو بھی اہمیت دیتا ہے، کدھر جائے گا؟ ایران کے اتحادی روس کا ساتھ کیسے دے پائے گا؟ سعودی عرب کو ترکی اور قطر کے ساتھ تعلقات رکھتے ہوئے کیسے مطمئن کرے گا؟ افغانستان اور ہندوستان، اور امریکا اور ہندوستان کے درمیان بڑھتی ہوئی پینگوں کی صورت میں مغربی بارڈر کے حالات کیسے کنٹرول ہوں گے؟
ایسے کئی بھیانک سوالات منہ کھولے کھڑے ہیں لیکن پاکستان کی سیاسی قیادت کو کرسی کے جھگڑے سے ہی فرصت نہیں۔ ایک فریق کرسی بچانے دوسرا چھیننے کی فکر میں ہے، ان حالات میں ملکی دفاع کے اداروں کو بھی سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
سیاسی قیادت نے مفادات کو پس پشت ڈال کر حالات کا یکسوئی سے مقابلہ نہ کیا خطرات کے یہ بادل مزید گہرے ہوتے جائیں گے۔
تبصرے (2) بند ہیں