• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

امریکا کا پاکستان سے متعلق اپنی پالیسی میں سختی پر غور

شائع June 21, 2017

واشنگٹن: افغاستان پر حملوں میں ملوث مبینہ دہشت گردوں کی پاکستان میں موجود محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف مزید کارروائی کے مطالبے کے حوالے سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ پاکستان کے ساتھ اپنی پالیسی میں سختی پر غور کررہی ہے۔

امریکی حکام کے مطابق اس حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کے زیر غور اقدامات میں ڈرون حملوں میں اضافے، پاکستان کی امداد میں کمی یا منتقلی، یا غیر نیٹو اتحاد میں پاکستان کا درجہ کم کرنا شامل ہے۔

دوسری جانب کچھ امریکی حکام ان اقدامات کے نتیجے میں مثبت نتائج کے حوالے سے شبے کا اظہار کررہے ہیں۔

ان حکام کا ماننا ہے کہ گذشتہ کئی سالوں کے دوران پاکستانی پالیسیوں میں تبدیلی کی کوششیں ناکام رہی ہیں جبکہ بھارت کے ساتھ امریکا کے مضبوط ہوتے تعلقات بھی اسلام آباد کے ساتھ تعاون کے حوالے سے پیش رفت کی امید کو کم کرتے ہیں۔

امریکی حکام کے مطابق وہ پاکستان کے ساتھ بہتر تعاون کے خواہاں ہیں اور ان تعلقات کو متاثر ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے، جبکہ اس وقت حتمی اقدامات کا فیصلہ کیا جانا باقی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'نئی امریکی پالیسی افغانستان و پاکستان دونوں پر لاگو ہوگی'

پینٹاگون کے ترجمان ایڈم اسٹمپ کہتے ہیں کہ 'امریکا اور پاکستان قومی سلامتی کے مختلف معاملات پر اپنی شراکت داری کو برقرار رکھیں گے'۔

تاہم انتطامیہ کے زیر غور معاملات ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانے، جنہیں افغانستان کی صورتحال کو متاثر کرنے کی وجہ قرار دیا جاتا ہے، سے نمٹنے کے لیے امریکا جارحانہ نقطہ نظر کی طرف جاسکتا ہے۔

ایک امریکی عہدے دار کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے خطے کے حوالے سے اپنی حکمت عملی طے کرنے کے دوران گذشتہ چند ہفتوں میں پاکستان کے ساتھ تعلقات پر زیادہ زور دیا ہے۔

حکام کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم نے پاکستان کے حوالے سے اپنی حکمت علی کبھی واضح طور پر بیان نہیں کی، یہ حکمت عملی دراصل یہ بتاتی ہے کہ ہم پاکستان سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں'۔

مزید پڑھیں: پاکستانی سفیر کی امریکا سے افغانستان کے معاملے پر گفتگو

دیگر حکام انتظامیہ کے فیصلے کے بعد حکومت میں ممکنہ تقسیم کے خدشے کو ظاہر کرتے ہیں کیونکہ امریکی پالیسی کے نتیجے میں اسلام آباد کا رویہ بھی تبدیل ہوسکتا ہے اور واشنگٹن کو ہر صورت میں پاکستان میں ایک شراکت دار درکار ہے چاہے وہ نامکمل ہی کیوں نہ ہو۔

واضح رہے کہ امریکا ایک بار پھر افغانستان میں ہزاروں فوجیوں کی تعیناتی کے لیے تیار ہے جو اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ افغانستان میں امریکی حمایت یافتہ فورسز کامیاب نہیں ہورہی اور طالبان عسکریت پسندوں کی بغاوت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کو نشانہ بنانے والے پاکستان میں موجود مبینہ عسکریت پسندوں پر دباؤ میں اضافہ کیے بغیر افغانستان میں اضافی فوج کی تعیناتی مقصد کے حصول میں سازگار نہیں ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ مضبوط شراکت کا خواہاں: وزیراعظم

کابل بھی طویل عرصے سے افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے کردار پر تنقید کرتا رہا ہے۔

دوسری جانب پاکستان اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کی موجودگی کو سختی سے مسترد کرتا رہا ہے اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) ڈائریکٹوریٹ کے حقانی نیٹ ورک سے تعلقات کے امریکی دعوؤں کو غلط قرار دیتا رہا ہے۔

اعلیٰ پاکستاسی سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کا مؤقف ہے کہ ہم بہت کچھ کررہے ہیں اور ہمارے پاس بہت سے ایسے مسائل ہیں جن سے ہمیں نمٹنا ہے'۔

ذرائع نے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستان پر دباؤ کے امکان پر بھی شبے کا اظہار کیا اور کہا کہ 'وہ پاکستان پر اس قدر دباؤ نہیں ڈالنا چاہتے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ ہی نہ رہے'۔


یہ خبر 21 جون 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 26 نومبر 2024
کارٹون : 25 نومبر 2024