سانحہ صفورہ کے مجرموں کے خلاف دیگر مقدمات کی سماعت کا آغاز
کراچی: سانحہ صفورہ گوٹھ اور سبین محمود قتل کے الزام میں مختلف فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے مجرموں کو دیگر سنگین نوعیت کے مقدمات میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کردیا گیا۔
پولیس نے سانحہ صفورہ میں سزائے موت پانے والے دو مجرموں سعد عزیز اور طاہر منہاس کو دیگر مقدمات میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا۔
جہاں عدالت نے 5 مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے ان میں نامزد دیگر 5 مفرور دہشت گردوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔
مزید پڑھیں: سبین قتل کیس،صفورہ گوٹھ حملے میں ملوث ملزم گرفتار
ان مقدمات میں تھانہ شارع فیصل میں نیوی کے کیپٹن ندیم احمد قتل کیس، نیو کراچی میں پولیس محافظ وقار ہاشمی کیس، حیدری مارکیٹ بم دھماکا کیس، نارتھ ناظم آباد اور سمن آباد میں پولیس مقابلہ اور دھماکا خیزمواد کے مقدمات شامل ہیں۔
خیال رہے کہ سعد عزیز اور طاہر منہاس سمیت 5 مجرموں کے خلاف درج سانحہ صفورہ اور سبین محمود قتل کیسز کو سماعت کے لیے فروری 2016 میں فوجی عدالت منتقل کیا گیا تھا۔
ان مجرمان کے دو مقدمات کی فوجی عدالت منتقلی کے باعث دیگر مقدمات کی سماعت روک دی گئی تھی، جو ڈیڑھ برس بعد دوبارہ بحال کردیئے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سانحہ صفورا: 4 اعلیٰ تعلیم یافتہ ملزمان گرفتار
واضح رہے کہ مئی 2015 میں کراچی کے علاقے صفورہ گوٹھ کے قریب بس پر ہونے والی فائرنگ سے 18 خواتین سمیت 47 افراد ہلاک ہوگئے تھے جن کا تعلق اسماعیلی برادری سے تھا۔
اس کے علاوہ سوشل فورم ٹی ٹو ایف کی بانی اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن سبین محمود کو اپریل 2015 میں بلوچستان کے حوالے سے منعقدہ ایک سمینار میں شرکت کے بعد ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) میں فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے مئی 2016 میں اپنے ایک اعلان میں پانچ انتہائی اہم دہشت گردوں کی فوجی عدالتوں سے سزائے موت کے فیصلے کی تصدیق کی تھی جس میں طاہر منہاس، سعد عزیز، اسد الرحمٰن، محمد اظہر عشرت اور حافظ نثار احمد شامل تھے، ان پر الزام ہے کہ وہ صفورہ گوٹھ میں بس پر حملے اور سبین محمود کے قتل میں ملوث ہیں۔
مزید پڑھیں: سانحہ صفورا: پانچوں مجرموں کے ڈیتھ وارنٹ جاری
ان کی اپیلوں کو 25 جولائی 2016 کو مسترد کردیا گیا اور ان کی سزائیں برقرار رکھی گئی ہیں۔
بعد ازاں رواں سال جنوری میں فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے 5 ملزمان نے فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔