طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے پاکستان اہم: امریکا
واشنگٹن: امریکی حکام کا ماننا ہے کہ انسداد دہشت گردی کے مسائل پر پاکستان امریکا کا اتحادی ہے اور افغان طالبان کو امن مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے اس کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہوگا۔
ان خیالا ت کا اظہار قائم مقام اسسٹنٹ سیکریٹری اسٹیٹ برائے سیاسی و عسکری معاملات ٹینا کیڈاناؤ نے کانگریس کے اجلاس کے دوران کیا۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ہیدھر ناؤٹ کا کہنا ہے ’امریکا اور پاکستان کی خطے کے امن، سیکیورٹی، ترقی اور بحالی میں قریبی شراکت داری ہے اور امریکی اور پاکستانی حکومتیں باہمی مفادات بشمول انسداد دہشت گردی پر مل کر کام جاری رکھیں گی‘۔
ایک سابق امریکی جنرل دوگلس لیوت نے واشنگٹن پر زور دیا کہ وہ پاکستان کے حوالے سے اپنے مطالبات اور دیگر مفادات کو متوازن کرے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’دراصل ہمارے پاکستان میں کئی مفادات ہیں جو افغان طالبان سے نمٹنے میں ہمارے مفادات سے زیادہ اہم ہیں‘۔
مزید پڑھیں: 'ٹرمپ کو پاک-امریکا تعلقات میں بہتری کی امید'
یہ تین وہ اشخاص ہیں جو واشنگٹن میں پاک-امریکا تعلقات کے حق میں آواز اٹھاتے رہے ہیں اور امریکی حکام پر زور دیتے رہے ہیں کہ پاک-امریکا تعلقات قائم رہنے چاہئیں۔
پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے حق میں بلند ہونے والی یہ آوازیں متاثر کن نظر آتی ہیں جبکہ دوسری جانب کچھ امریکی پاکستان کو 'دہشت گردی کا کفیل ملک' قرار دینا چاہتے ہیں جبکہ کچھ چاہتے ہیں کہ امریکا پاکستان کی فوجی اور مالی امداد بند کر دے، اس کے علاوہ کچھ امریکی حکام چاہتے ہیں کہ امریکا پاکستان کی سب سے اہم غیر نیٹو اتحادی کی حیثیت کو ختم کر دے۔
اس معاملے پر زیادہ تر مباحثے کانگریس کمیٹیوں کی جانب سے منعقد ہوئے۔
ان ہی اجلاسوں میں سے ایک اجلاس کے دوران امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹلرسن نے انکشاف کیا تھا کہ انتظامیہ پاکستان کو دی جانے والی امریکی امداد کی بین الایجنسی نظر ثانی کر رہی ہے۔
امریکا کا یہ فیصلہ اس بات کا اشارہ ہے کہ واشنگٹن پاکستان کے ساتھ نہ تو اپنے تعلقات ختم کرے گا اور نہ ہی اسے دہشت گردی کا مبینہ کفیل قرار دے گا بلکہ وہ پاکستان کی مالی امداد پر نئی سخت پابندیاں عائد کر دے گا۔
ایک اور خبر پڑھیں: ’امریکی نظریہ پاکستان کی حقیقی صورتحال کاعکاس نہیں‘
اس کے علاوہ واشنگٹن افغانستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے جواب میں پاکستان میں ڈرون حملوں میں اضافہ کر سکتا ہے۔
امریکی کانگریس کے اجلاسوں کے دوران ہی اسسٹنٹ سیکریٹری کیڈاناؤ نے وضاحت کی تھی کہ آخر کیوں پاکستان کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کانگریس کو بتایا کہ پاکستان انسداد دہشت گردی کے معاملات میں امریکا کا اتحادی ہے اور افغان طالبان کو امن مذاکرات کی میز پر لانے میں بہت اہم ثابت ہوگا تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد سے ان تعلقات میں ایک شرط واضح ہے اور وہ ہے ’ڈو مور‘۔
امریکی حکام پاکستان کے حقانی نیٹ ورک کے ساتھ مبینہ تعلقات کے حوالے سے بات کرتے رہے ہیں جو افغانستان میں امریکی فوجیوں، نیٹو فورسز اور افغان حکومت سے مسلح جنگ کر رہے ہیں۔
کیڈاناؤ نے بتایا کہ پاکستانی حکومت کو اعلیٰ سطح پر ان امریکی خدشات کے بارے میں آگاہ کر دیا گیا ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیں: پاک امریکا تعلقات چیلنجز سے بھرپور
کانگریس میں ریپبلکن کے نمائندے ڈانا روہرابچر نے کیڈاناؤ سے سوال کیا کہ امریکی انتظامیہ پاکستان کو دیے جانے والے ہتھیار کو کس طرح صحیح ثابت کرے گی۔
حالانکہ ٹرمپ انتظامیہ نے آئندہ مالی سال 2018 کے بجٹ میں پاکستان کی فوجی امداد کو 26 کروڑ 50 لاکھ ڈالر سے کم کر کے 10 کروڑ ڈالر تک کر دیا ہے جس پر روہرابچر نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے کیوں کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکا پاکستان کی فوجی امداد کو مکمل طور پر بند کر دے۔
حالیہ دنوں میں امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے سربراہ باب کورکر نے کہا تھا کہ وہ امریکا کے پاکستان کے ساتھ تعلقات پر مایوس ہیں اور ساتھ ہی انھوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستان کو دی جانے والی امریکی امداد کو ختم کر دیا جائے۔
یاد رہے کہ باب کورکر نے امریکی امداد کے ذریعے پاکستان کو F-16 طیاروں کی فروخت کو رکوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
پاک-امریکا تعلقات کو امریکی محکمہ خارجہ کی بریفنگ کے دوران بھی اٹھایا گیا تھا، جہاں ایک صحافی نے محکمہ خارجہ کی ترجمان سے سیکریٹری اسٹیٹ کے اعلان کی وضاحت مانگی تھی۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: 'امریکا سے تعلقات بحال کرنا چاہتے ہیں'
صحافی کو موصول ہونے والے جواب کو پاکستانی ذرائع ابلاغ میں پاک-امریکی تعلقات کے ’خاتمے کا آغاز‘ کے طور پر پیش کیا گیا اور اکثر ماہرین نے کہا تھا کہ اب پاکستان کو امریکی امداد کے بغیر جینے کی عادت ڈالنی ہوگی۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ہیدھر ناؤٹ نے واضح کیا کہ ان کے تبصرے کو حقیقت نہ سمجھا جائے۔
انہوں نے کہا ’مجھے آپ لوگوں کو نظر ثانی کی فہرست دکھانی چاہیے جس میں امریکا کی ایران کے ساتھ پالیسی کی نظر ثانی، افغان پالیسی کی نظر ثانی موجود ہے اور امریکا کی پاکستان کے لیے پالیسی بھی ان ہی میں سے ایک ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم پاکستان کے لیے اپنی پالیسی کی بین الایجنسی نظر ثانی کا آغاز کر رہے ہیں اور یہ امریکا کی جنوبی ایشیا کے لیے قومی حکمت عملی کی وسیع نظر ثانی کا حصہ ہے جس میں پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک شامل ہیں‘۔
یہ خبر 19 جون 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی