• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

منی لانڈرنگ کے خلاف اسٹیٹ بینک کے نئے قوانین جاری

شائع June 10, 2017

کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے منی لانڈرنگ کے خلاف جنگ کے لیے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قرارداد کے تناظر میں نئے رہنما اصول جاری کر دیے۔

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے منی لانڈرنگ کے غیر قانونی عمل میں ملوث افراد کی گرفتاری کے باوجود پاکستان منی لانڈرنگ جیسے مسئلے میں دباؤ کا شکار رہا ہے۔

امریکی حکام نے نومبر 2015 میں انکشاف کیا تھا کہ اس نے ایک پاکستانی کرنسی ڈیلر الطاف خانانی کو ستمبر 2015 میں گرفتار کیا، ساتھ ہی دعویٰ کیا گیا کہ ان کی کمپنی منی لانڈرنگ میں ملوث تھی، جو دنیا بھر میں پیشہ ور مجرموں کے گروپوں،منشیات اسمگلنگ کرنے والے گروپوں اور نامزد دہشت گرد گروپوں کو رقوم فراہم کرتی تھی۔

یہ خبر پاکستان میں کرنسی ڈیلرز کے لیے ایک صدمہ اور پاکستان کے لیے تشویش کا باعث تھی جو دہشت گردی کا شکار ہونے کے باوجود بین الاقوامی طاقتوں کی جانب سے اس لعنت کے خلاف مزید اقدامات کرنے کے حوالے سے دباؤ کا شکار ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا: منی لانڈرنگ کے جرم میں 4پاکستانی بلیک لسٹ

یاد رہے کہ گزشتہ سال دسمبر کے پہلے ہفتے میں خانانی اینڈ کالیا انٹرنیشنل (کے کے آئی) کے ڈائریکٹر جاوید خانانی نے کراچی میں ایک زیر تعمیر عمارت سے چھلانگ لگا کر مبینہ طور پر خودکشی کرلی تھی۔

ایف آئی اے نے ایک چھاپے کے دوران جاوید خانانی اور مناف کالیا کو نومبر 2008 میں گرفتار کیا تھا جس کے بعد پاکستانی میں غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک پیسے کی منتقلی کا راز سامنے آیا جو ان کی کمپنی 'کے کے آئی' کے زیر اثر تھا۔

واقعے کے بعد کمپنی کو بند کر دیا گیا اور اسٹیٹ بینک نے کمپنی کے ڈائریکٹرز کے رہا ہونے کے باوجود کے کے آئی کے لائسنز بحال نہیں کیے۔

حال ہی میں اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل (یو این ایس سی) کی متعلقہ کمیٹی نے اثاثوں کے ضبط کیے جانے، سفری پابندیوں اور ہتھیاروں کی پابندی کا سامنا کرنے والے افراد یا اداروں کے ناموں کے اندراج، ترامیم یا نکالے جانے کی منظوری دی۔

یہ بھی پڑھیں: ڈھائی کروڑ ڈالرز روزانہ ملک سے باہر جارہے ہیں: گورنر اسٹیٹ بینک

اور جیسے ہی متعلقہ کمیٹی کی جانب سے اس فہرست کو اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے، حکومت پاکستان یو این ایس سی ایکٹ 1948 کے تحت ان فیصلوں پر عمل درآمد کرائے گی، جبکہ وزارت خارجہ نے یو این ایس سی کے قانون کو پاکستان میں قانونی شکل دینے کے لیے ’سیچوٹری ریگولیٹری آرڈر' (ایس آر او) جاری کیا ہے۔

اسی تناظر میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کیے گئے ایک اعلامیے میں واضح کیا گیا کہ 'ضوابط اور ہدایات کی روشنی میں کالعدم تنظیموں اور افراد کے خلاف پابندیاں اور ذمہ داریاں، حکومت کی جانب سے جاری اقدامات کی بنیاد پر کالعدم تنظیموں اور نامزد اداروں یا افراد پر مسلسل لاگو رہیں گی'۔

مرکزی بینک کے مطابق ریگولیشن 1 اور ہدایات کے متعلقہ اقتباس میں نتیجہ خیز تبدیلیوں کے باوجود ترمیم رہے گی، اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ ترقیاتی مالیاتی اداروں (ڈی ایف آئی) اور مائیکرو فنانس بینکس (ایم ایف بی) کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ ضروریات کی تعمیل کو یقینی بنائیں۔

اعلامیے کے مطابق بینک، ڈی ایف آئی یا پھر ایم ایف بی کسی بھی کالعدم یا نامزد کمپنی اور افراد کو یا پھر ان سے متعلقہ کسی بھی شخص کو انسداد منی لانڈرنگ (اے ایم ایل) اور دہشت گردی کی مالی معاونت 'Combating the Financing of Terrorism' (سی ایف ٹی) ریگولیشن کے تحت بینکنگ کی سہولیات فراہم نہ کرے۔

مزید پڑھیں: خانانی اینڈ کالیا کے ذریعے اہم شخصیات کی بیرون ملک اربوں روپے کی منتقلی

حکومت پاکستان نے یو این ایس سی ایکٹ 1948 اور اینٹی ٹیرارزم ایکٹ 1997 میں عائد کردہ پابندیوں کی عدم تعمیل کرنے والوں کے خلاف پہلے ہی 1 کروڑ روہے تک کا جرمانے کی سزا کا تعین کر رکھا ہے۔

حال ہی میں بیرون ممالک پیسہ منتقل کرنے والی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ اب غیر قانونی طریقے سے پاکستان سے باہر کرنسی بھیجنا نہایت ہی مشکل ہوگیا ہے جبکہ کرنسی ایکسچینج کا کاروبار کرنے والے افراد اب اس معاملے پر بات کرنے کو بھی تیار نہیں۔

تاہم ان کا ماننا ہے کہ اس غیر قانونی کاروبار کو پاکستان سے مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس کاروبار کی پاکستان میں مضبوط جڑیں موجود ہیں۔

جب سے دہشت گردی نے خصوصاً پاکستان، افغانستان اور ایران میں جارحانہ صورتحال پیدا کی ہے، تب سے اس غیر قانونی پیسے کی منتقلی کے خلاف لڑائی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے بڑا محاذ ہے۔


یہ خبر 10 جون 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024