کسی کو ہماری خارجہ پالیسی میں مداخلت کا حق نہیں، قطر
دوحہ: قطر نے خارجہ پالیسی پر مداخلت کی کوششوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پالسیی کو تبدیل کرنے کا مطالبہ ناقابل قبول ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے قطر کی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرنے کا مطالبہ باقابل قبول ہے، جنہوں نے رواں ہفتے کے آغاز میں دوحہ سے تمام سفارتی تعلقات ختم کردیے تھے۔
شیخ محمد کا کہنا تھا کہ ’کسی کو ہماری خارجہ پالیسی میں مداخلت کا حق نہیں‘۔
انھوں نے مذکورہ تنازع کے ’فوجی حل کے اختیار‘ کو مسترد کیا اور کہا کہ ان کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کے باوجود قطر ’ہمیشہ‘ زندہ رہ سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: بحرین کا قطر سے ’ایران‘ سے دوری پیدا کرنے کا مطالبہ
قطر کے وزیر خارجہ کا بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب سعودی عرب اور اس کے عرب اتحادیوں کی جانب سے قطر کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات کے حل کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
کویت کے امیر نے قطر اور اس کی ہمسایہ عرب ریاستوں کے درمیان ثالثی کی کوششوں کا آغاز کردیا ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگر ضروری ہوا تو وائٹ ہاؤس میں اس حوالے سے ایک کانفرنس کے انعقاد کا عندیہ دیا ہے۔
کویت امیر کی کوششیں
کویت، جس نے اپنے دیگر ہمسایہ عرب ریاستوں کی طرح قطر سے قطع تعلق نہیں کیا ہے، ان کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ثالثی کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
کویت کے امیر شیخ صباح الاحمد الصباح نے دو روز قبل اپنے قطری ہم منصب شیخ تمیم حماد الثانی سے مذاکرات کیے تھے جس کے بعد متحدہ عرب امارات کے حکام اور سعودی فرماں روا شاہ سلمان سے مذاکرات کیے۔
ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جنہوں نے ابتدا میں ایک ٹوئٹ کے ذریعے قطر کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کی حمایت کی تھی، نے بعد ازاں قطر کے شیخ کو کشیدگی کے خاتمے کے لیے ’ریاستوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کو حل کرنے میں مدد فراہم کرنے کی پیشکش‘ کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب سمیت 6 ممالک نے قطر سے سفارتی تعلقات ختم کردیئے
اس کے علاہ فرانس کے صدر عمانوایل میکران نے قطر، سعودی عرب اور ایران کے درمیان مذاکرات کے آغاز کے لیے کوششیں کی ہیں، ترکی نے بھی سعودی عرب اور قطر کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی میں محتاط رویہ اختیار کررکھا ہے، ترکی اور قطر کے درمیان توانائی کے شعبے میں قریبی تعلقات قائم ہیں۔
اس کے علاوہ ترکی نے رواں ہفتے ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف سے مذاکرات کی میزبانی کی ہے جس میں قطر بھی شامل ہے۔
دوحہ کی حمایت کے لیے علامت کے طور پر ترکی کی پارلیمنٹ نے دو روز قبل ایک معاہدے کی منظوری دی ہے جس کے ذریعے قطر میں ترکی کے بیس پر فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔
عرب ریاستوں میں تنازع کی وجہ
ماہرین کا کہنا تھا کہ حالیہ کشیدگی 2014 میں شروع ہونے والے تنازع میں ایک قسم کی توصیح ہے، جب سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے قطر کی جانب سے مصر کی اخوان المسلون کی حمایت پر عارضی طور پر اپنے سفیروں کو دوحہ سے واپس بلا لیا تھا۔
خلیج کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اہم تشویش شیخ تمیم کے والد شیخ حماد کی مداخلت کی ہے جنہوں نے طالبان کو دوحہ میں دفتر کھولنے کی اجازت دی اور 2013 میں کنارہ کشی سے قبل شام کے باغیوں کو اسلحہ فراہم کرنے میں مدد کی تھی۔
عہدیدار نے بتایا کہ قطر کے سابق امیر شدت پسندی کے اس تمام ایجنڈے کے حمایتی تھے، جس پر ہمیں مسئلہ ہے‘۔
مزید پڑھیں: امریکی صدر کا قطری امیر سے رابطہ، ثالثی کی پیشکش
متحدہ عرب امارات کے ایک سینئر عہدیدار کاکہنا تھا کہ رواں ہفتے میں اٹھائے گئے اقدام کا مقصد قطر میں حکومت کی تبدیلی نہیں ہے بلکہ ریاست پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ اپنی پالیسی کو تبدیل کرے۔
متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور انور کا کہنا تھا کہ ’یہ خارجہ پالیسی ہے جو خطرناک ہوتی جارہی ہے، ہمیں ہر ایک پر نظر رکھنا ہوگی‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بحران کے خاتمے کے لیے چار عرب ممالک کی جانب سے قطر کے سامنے جو شرائط رکھی گئی تھیں وہ بلکل واضح ہیں، جس میں حماس اور اخوان المسلمون کی حمایت کا خاتمہ بھی شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عرب ممالک کی جانب سے قطر کے اچانک بائیکاٹ کا سبب؟
انہوں نے کہا کہ ’قطر کو اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا اور اپنے پرانے وعدوں کی پاسداری کرنی ہوگی، اسے میڈیا پر مہم جوئی کا خاتمہ کرنا ہوگا، اور یہ مذاکرات کی شرط ہے‘۔
خیال رہے کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے الجزیرہ کی نشریات پر پابندی عائد کردی ہے اور چینل کے دفاتر بھی بند کردیے گئے ہیں۔
یہ رپورٹ 9 جون 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی