ایرانی پارلیمنٹ میں فائرنگ، خمینی کے مزار پر خودکش حملہ،12ہلاک
تہران: ایران کے دارالحکومت میں واقع سابق سپریم لیڈر اور روحانی پیشوا آیت اللہ خمینی کے مزار پر خودکش حملے اور ایرانی پارلیمنٹ میں فائرنگ کا واقعے میں 12 افراد ہلاک اور 42 زخمی ہوگئے۔
ایران کی ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ کے سربراہ فیروسن خولیواند کے حوالے سے ایرانی سرکاری نیوز ویب سائٹ میزان آن لائن نے ان دونوں دہشت گرد حملوں میں ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد کی تعداد کی تصدیق کی۔
بعد ازاں ان دونوں حملوں کی ذمہ داری دہشت گرد گروپ داعش نے قبول کی۔
واضح رہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب داعش کی جانب سے ایران میں کسی واقعے کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے جبکہ عراق اور شام میں ایرانی حمایت یافتہ افواج دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔
داعش کی نیوز ایجنسی عماق نے پارلیمنٹ کے اندر کی 24 سیکنڈ کی ویڈیو جاری کی جس میں ایک مسلح شخص کے قریب خون میں لت پت فرد کو دیکھا جاسکتا ہے۔
ویڈیو میں ایک آواز بلند ہورہی ہے جو عربی میں ہے اور کہا جارہا ہے کہ 'کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہمیں جانا ہوگا؟ یا ہمیں رہنا ہوگا'۔
ایران کے ڈپٹی وزیرداخلہ محمد حسین ذوالفغیری نے ایرانی سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ مرد حملہ آوروں نے خواتین کا روپ دھار رکھا تھا۔
نیوز ایجنسی تسنیم کی رپورٹ کے مطابق واقعہ چاروں دہشت گردوں کی ہلاکت کے بعد ختم ہوا۔
مقامی میڈیا نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ خودکش حملہ آور نے پارلیمنٹ کی عمارت سے 20 کلومیٹر کی دوری پر واقع مزار میں داخل ہو کر خود کو دھماکے سے اڑالیا۔
ایرانی پارلیمنٹ پر فائرنگ
مزار پر حملے سے قبل ایرانی پارلیمنٹ میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا جہاں ایک مسلح شخص نے پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل ہو کر گارڈز پر فائرنگ شروع کردی۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ایران کی مقامی نیوز ایجنسیوں کی ٹیلی گرام فیڈز میں دعویٰ کیا گیا کہ حملہ آور نے ایک گارڈ کی ٹانگ پر گولی ماری اور فرار ہوگیا۔
فائرنگ کے نتیجے میں زخمی سیکیورٹی گارڈ بعدازاں ہلاک ہوگیا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی سرحد کے قریب جھڑپ، ایران کے 8 سرحدی محافظ ہلاک
ایران کی ایک اور نیوز ایجنسی تسنیم کے مطابق اس حملے میں سیکیورٹی گارڈ کے ساتھ ساتھ دو عام شہری بھی زخمی ہوئے۔
دوسری فرانسیسی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایک ایرانی رکن پارلیمنٹ نے مقامی میڈیا سے گفتگو میں حملہ آوروں کی تعداد 4 بتائی، جو رائفلز اور پستولوں سے لیس تھے۔
ایرانی قانون ساز الیاس حضرتی نے بتایا کہ پارلیمنٹ پر ہونے والے حملے میں 3 حملہ آور ملوث تھے، جن میں سے ایک کے پاس پستول اور دو کے پاس اے کے-47 رائفلز موجود تھیں۔
حملے کے بعد پارلیمنٹ کے خارجی اور داخلی راستوں کو فوری طور پر بند کردیا گیا جبکہ قانون سازوں اور میڈیا نمائندگان کو چیمبر میں رہنے کی ہدایت کی گئی۔
بعد ازاں مقامی میڈیا کی رپورٹس میں پارلیمنٹ کی چوتھی منزل پر ایک حملہ آور کے خود کو دھماکے سے اڑانے کی اطلاعات سامنے آئیں۔
مزید پڑھیں: مسلح ڈاکوؤں کی فائرنگ سے 4 ایرانی اہلکار ہلاک
خیال رہے کہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والے شدت پسند تنطیم داعش نے شام اور عراق کے بڑے رقبے پر 2014 میں قبضہ کر لیا تھا، بعد ازاں امریکا کی قیادت میں عالمی اتحاد نے داعش کے خلاف حملے شروع کیے، تاہم عالمی اتحاد نے شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کو بھی تسلیم نہیں کیا اور وہ بشار الاسد کی بھی حکومت سے علیحدگی چاہتے تھے، تاہم روس شامی صدر کے ساتھ کھڑا ہوا اور داعش کے خلاف حملوں کا آغاز کیا۔
روس کے علاوہ ایران بھی شام میں بشار الاسد کی حکومت کا حامی ہے، جبکہ ایران نے شام اور عراق میں داعش کے خلاف لڑنے والے گروہوں کی بھی حمایت کی ہے، اسی طرح شام میں داعش کے خلاف لڑتے ہوئے ایران کے کئی اعلیٰ فوجی افسران کی ہلاکتوں کی خبریں سامنے آ چکی ہیں۔
داعش کی جانب سے ایران میں اس طرح کی بڑی کارروائی پہلی بار دیکھنے میں آئی ہے، تاہم یہ واضح ہونا باقی ہے کہ اس اہم حملے میں مقامی سطح پر دہشت گردوں کی معاونت کس نے کی۔
حملے 'فائرورک' ہیں:آیت اللہ خامنہ ای
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے ایرانی پارلیمنٹ اور آیت اللہ خمینی کے مزار پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ تہران میں مسلح حملے 'فائرورک' تھے جس سے ملک کمزور نہیں ہوگا۔
ایران کی سرکاری ٹی وی کے مطابق آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ 'اس طرح کے فائرورک سے ایران پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور انھیں جلد ہی ختم کردیا جائے گا کیونکہ وہ ایرانی قوم اور عہدیداروں پر اثرانداز ہونے کے لیے مٹھی بھر ہیں'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایران، شام میں داعش سمیت باغیوں کے خلاف جنگ میں بشارالاسد کی مدد کررہا ہے لیکن اپنی خارجہ پالیسی کے ذریعے خطرناک حملوں کو روکے رکھا'۔
خامنہ ای نے کہا کہ 'اگر ایران دہشت گردوں سے نہیں لڑتا تو ایران کو مزید حملوں کا سامنا کرنا پڑتا'۔