قصہ دو جعلی خبروں کا، جنہوں نے خلیج میں آگ بھڑکا دی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کے صرف دو ہفتوں بعد ٹرمپ کے شاہی اتحادیوں نے خلیج کی ننھی منی سی ریاست قطر کے خلاف بڑا سیاسی و معاشی محاذ کھول لیا ہے، لیکن یہ ایک ایسا پنڈورا باکس ہے جو خود ٹرمپ کے لیے انتہائی تکلیف دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
قطر امریکا کا اہم ترین اتحادی ہے، اس کے العدید ایئر بیس پر امریکا کے دس ہزار سے زائد فوجی تعینات ہیں، اس بیس کو امریکا کی سینٹرل کمانڈ کے فارورڈ ہیڈ کوارٹر حیثیت حاصل ہے۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر سمیت سات ملکوں کی جانب سے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے اعلان کے بعد آسٹریلیا کے دورے پر موجود امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس اور وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے یوں ظاہر کیا کہ وہ خلیجی ملکوں میں پیدا ہونے والی اس سفارتی دراڑ سے پیشگی آگاہ نہ تھے، دونوں کا مؤقف تھا کہ اس سفارتی رخنے سے خطے یا بین الاقوامی سطح پر جاری دہشتگردی کے خلاف جنگ پر کسی قسم کا نمایاں فرق نہیں پڑے گا۔
سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات، بحرین کی طرف سے اٹھائے گئے اب تک کے اقدامات اگرچہ جنگی نہیں لیکن ڈریکونین ضرور ہیں۔ سعودی عرب نے قطر کے ساتھ سرحد بند کر دی ہے اور قطر کی غذائی ضروریات کا 40 فیصد حصہ بذریعہ سعودی عرب آتا ہے۔
سعودی عرب اور اتحادیوں نے قطر کے شہریوں کو 48 گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کا الٹی میٹم دیا، ساتھ ہی اپنے شہریوں کو بھی اسی مدت میں قطر سے نکلنے کی ہدایت کی، جس کے بعد ان ملکوں کی فضائی کمپنیوں نے بھی اپنے آپریشن غیر معینہ مدت تک بند کرنے کا اعلان کیا۔ قطر کے لیے زمینی کے علاوہ فضائی راستے بھی بند کر دیے گئے ہیں۔
یہ اقدامات غیر معمولی ہیں جن سے خطے میں امریکا کے آپریشنز بھی متاثر ہوں گے اور یہ سوچنا محال ہے کہ ان اقدامات سے پہلے عرب اتحادیوں نے امریکا کو اعتماد میں نہیں لیا۔ صاف ظاہر ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان کو یقین تھا کہ امریکا ان کے اقدامات کی حمایت کرے گا، شہزادہ محمد بن سلمان کا تذکرہ یہاں اس لیے کیا گیا ہے کہ سعودی حکومت میں وہی فیصلہ ساز ہیں۔ محمد بن سلمان کے اختیارات اور مستقبل کی بادشاہت کے لیے ان کی خواہش ہی ہے جس نے خلیج میں اس آگ کو ہوا دی۔
محمد بن سلمان بادشاہت کی خواہش رکھتے ہیں لیکن اپنے عزائم کو آشکار بھی نہیں ہونے دینا چاہتے۔ محمد بن سلمان کے عزائم قطر پر پابندیوں سے صرف دو دن پہلے ثبوت کے ساتھ آشکار ہو گئے، جب متحدہ عرب امارات کے امریکا میں سفیر یوسف القتیبہ اور اسرائیل نواز تھنک ٹینک فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز ( ایف ڈی ڈی) کے درمیان ہونے والی خط و کتابت نامعلوم ہیکرز سامنے لے آئے۔
اس تھنک ٹینک کو ایک امریکی تاجر شیلڈن ایڈلسن فنڈز فراہم کرتا ہے، شیلڈن اسرائیل کے اخبار اسرائیل الیوم، امریکا کے اخبار لاس ویگاس جرنل کے مالک ہونے کے ساتھ ری پبلکن پارٹی کو سب سے زیادہ امداد دینے والا اور اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کا قریبی دوست ہے۔ امارات کے سفیر یوسف القتیبہ امریکی صدر کے مشیر اور داماد جیرڈ کوشنر کے ساتھ بذریعہ فون اور ای میل مستقل رابطے میں رہتے ہیں۔
امارات کے سفیر، امریکی تھنک ٹینک اور صحافیوں کی ہیک کی گئیں ای میلز سے معلوم ہوا کہ محمد بن سلمان بادشاہت کے خواہاں ہیں اور امارات بھی انہیں بادشاہ کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے۔ امارات کے سفیر یوسف القتیبہ نے واشنگٹن پوسٹ کے صحافی ڈیوڈ اگنیشیس کو ان کے حالیہ مضمون، جس میں محمد بن سلمان کی بادشاہت کی بات کی گئی تھی، کے بعد ای میل کی اور لکھا کہ لگتا ہے آپ نے بھی اب وہی کچھ دیکھنا شروع کر دیا ہے جو ہم دو سال سے دیکھ رہے ہیں، یعنی تبدیلی، اب ہمیں اس بات پر اتفاق کرنا چاہیے کہ سعودی عرب میں یہ تبدیلی بہت ضروری ہے، اب ہمارا کام یہ ہے کہ ہم یقینی بنائیں کہ محمد بن سلمان ہی شاہ سلمان کے جانشین بنے۔
محمد بن سلمان کے عزائم اس ای میل میں عیاں ہیں اور ان کے اماراتی دوستوں کی کوششیں بھی۔ یقیناً یہ لیکس محمد بن سلمان اور اماراتی حکمرانوں کے لیے خفت کا باعث بنیں۔
انہی لیکس سے انکشاف ہوا کہ امارات کے حکمران امریکی اسرائیلی تھنک ٹینک کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ بیک چینل رابطوں میں ہیں۔ ہیک شدہ ای میلز میں کئی صفحات پر مشتمل ایک ایجنڈا بھی ہے جو دراصل 11 سے 14 جون تک ہونے والی اماراتی حکام اور تھنک ٹینک کے ارکان کی ملاقاتوں کا ایجنڈا ہے۔
ملاقات تھنک ٹینک کے سی ای او مارک ڈوبووز، مشرق وسطیٰ پر جارج ڈبلیو بش اور ڈک چینی کے مشیر رہنے والے جان ہنا کے ساتھ طے پائی، تھنک ٹینک نے امارات کے ولی عہد شیخ محمد بن زائد سے بھی ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی۔ ایجنڈے میں قطر، الجزیرہ ٹی وی اور ایران بھی شامل تھے۔
ایک اور میل میں مارک ڈوبووز نے یوسف القتیبہ کو ان کمپنیوں کی فہرست بھجوائی جو امارات کے علاوہ ایران میں بھی کام کر رہی ہیں، مارک کی طرف سے فہرست بھجوانے کا مقصد ان کمپنیوں پر دباؤ ڈالنا تھا کہ وہ ایران یا امارات میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔
گزشتہ سال اگست میں تھنک ٹینک کے جان ہینا نے یوسف القتیبہ کو ایک ای میل کی جس سے پتہ چلتا ہے ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے پیچھے عرب امارات اور اسرائیلی امریکی تھنک ٹینک بھی موجود تھے جس پر جان ہینا نے یوسف القتیبہ کا شکریہ ادا کیا۔ جان ہینا نے ترکی میں ناکام بغاوت سے ایک ماہ پہلے فارن پالیسی میگزین میں ایک مضمون بھی لکھا جس میں ترکی میں فوجی بغاوت کی پیشگوئی کی گئی تھی۔
اس سال اپریل میں جان ہینا نے یوسف القتیبہ کو ای میل کی جس میں شکایت کی گئی کہ قطر حماس کے رہنماؤں کا اجلاس امارات کے ملکیتی ہوٹل میں کروا رہا ہے۔ یوسف القتیبہ نے جواب میں لکھا کہ اصل مسئلہ امریکا کا قطر میں واقع اڈہ ہے، تم اڈہ منتقل کراؤ، ہم ہوٹل وہاں سے ختم کر دیں گے۔
یہ لیکس خود کو گلوبل لیکس کہلوانے والے ہیکرز کے گروہ نے کیں، جو روس کا ای میل ایڈریس استعمال کرتے ہیں اور یہ لیکس انٹرسیپٹ، ہفنگٹن پوسٹ اور ڈیلی بیسٹ کو بھجوائی گئیں۔ ہیکرز خود کو روسی ظاہر کر رہے ہیں لیکن اصل میں کون ہیں اب تک معلوم نہیں ہو سکا۔
ہیکرز روسی ہیں یا امریکی، اس سے قطع نظر اہم بات یہ ہے کہ عرب حکمرانوں کی درون خانہ سیاست آشکار ہو چکی ہے۔ اس کا نقصان عربوں کے ساتھ ساتھ پوری مسلم دنیا کو ہوگا، اس نقصان کا پہلا ظہور تو عربوں کی اس پھوٹ کی شکل میں ہو چکا ہے۔
گلوبل لیکس سے پہلے جعلی خبروں کے ذریعے امریکا کی صدارت سنبھالنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے دورہ سعودی عرب میں ایک بڑی جعلی خبر چلوائی۔ سیکیورٹی، جنوبی ایشیا اور انسداد دہشتگردی امور کے امریکی ماہر بروس ریڈل کے مطابق ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کے دوران سعودی عرب اور امریکا کے درمیان ایک سو دس ارب ڈالر کے دفاعی معاہدوں کی خبر جھوٹ ہے۔
بروس ریڈل نے بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے لیے لکھے گئے مضمون میں واضح کیا کہ سعودی عرب اور امریکا کے درمیان کوئی نیا دفاعی معاہدہ طے نہیں پایا بلکہ دفاعی صنعت اور امریکی پارلیمنٹ میں ان کے دوستوں نے انہیں بتایا کہ وہ سب لیٹر آف انٹرسٹ تھے، کوئی معاہدہ ہوتا تو وہ سینٹ کمیٹی کو جائزے کے لیے بھجوایا جاتا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کی طرف سے جن ہتھیاروں کی خریداری کی بات ہو رہی ہے وہ اوباما دور سے ہی ہے اور اب تک اس پر کوئی ٹھوس پیشرفت نہیں ہوئی۔ 2015 کی کیمپ ڈیوڈ ملاقات میں بھی ان معاہدوں کا ذکر ہوا لیکن تکمیل کو نہیں پہنچے۔
بروس ریڈل نے اپنے مؤقف کی حمایت میں ایک اور دلیل پیش کی کہ اگر سعودی عرب کے ساتھ ایسی کوئی ڈیل حقیقت میں ہوئی ہوتی تو امریکا اسرائیل کو بھی اس سے بہتر ڈیل کی پیشکش کرتا تا کہ اسرائیل کو اپنے عرب ہمسایوں پر برتری حاصل رہے۔ اوباما کے 8 سالہ دور میں سعودی عرب نے 112 ارب ڈالر کا اسلحہ امریکا سے خریدا جس میں سب سے بڑی ڈیل 2012 کی تھی لیکن اس ڈیل کی کانگریس سے منظوری کے لیے اس وقت کے وزیر دفاع باب گیٹس کو اسرائیل کی اشک شوئی کے لیے اس سے بڑی ڈیل دینی پڑی تھی۔
ریاض کی سربراہی کانفرنس کا واحد حقیقی نتیجہ خلیجی ملکوں میں پھوٹ ہے، یہ پھوٹ اگرچہ پہلی بار نہیں لیکن اس بار اس کے نتائج فرقہ وارانہ اور سیاسی لحاظ سے زیادہ سنگین ہوں گے۔ بروس ریڈل کی یہ بات سو فیصد درست ہے کیونکہ سعودی امریکا ڈیل کی خبروں سے ایران برافروختہ ہوا ہے اور خطے میں کشیدگی جنم لے چکی ہے۔
دوسری جعلی خبر قطر کی سرکاری خبر ایجنسی کی ویب سائٹ مبینہ طور پر ہیک کرکے پھیلائی گئی، قطر کی سرکاری ایجنسی کیو این اے پر امیر قطر سے منسوب ایسے بیانات جاری کیے گئے جو کسی بھی خلیجی ریاست کا امیر کسی طور پر نہیں کہہ سکتا، امیر قطر سے منسوب کیا گیا کہ دوحہ کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات خراب ہیں، ایران ایک اسلامی قوت ہے۔ ایران کے ساتھ دشمنی عقلمندی کی بات نہیں۔ ٹرمپ کو اندرونی طور پر قانونی مشکلات کا سامنا ہے۔
ان خبروں کی اشاعت پر قطر نے بہت وضاحتیں پیش کیں لیکن سعودی عرب الجزیرہ ٹی وی کو اپنی بادشاہت کے لیے خطرہ سمجھتا ہے تو مصر کے السیسی امیر قطر کو اخوان المسلمون کی حمایت پر سزا دینا چاہتے ہیں۔ ان دو بڑی عرب طاقتوں کی منشا میں ہی باقی عربوں کی بقا ہے۔
تبصرے (6) بند ہیں