میں ڈبل ماسٹرز کے باوجود ایک بیروزگار خواجہ سرا ہوں
میں رفی خان ہوں، ایک خواجہ سرا جو سندھ میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرتی ہے۔ جس دن سے میں نے گھر چھوڑا تب سے مجھے ایک طویل سفر طے کرنا پڑا ہے۔
لوگ مجھے رقص کرنے یا گداگری جیسے پیشوں کو چھوڑ کر کوئی ہنر سیکھنے اور کام شروع کرنے کا مشورہ دیتے ہیں؛ انہیں پتہ ہی نہیں کہ میں سند یافتہ ڈبل ماسٹرز ہوں۔
میرا تعلق لاڑکانہ کے ایک پڑھے لکھے خاندان سے ہے، مگر میرے والدین اور بہن بھائیوں نے میری جنسی شناخت کی بناء پر مجھے مسترد نہیں کیا۔ خوش قسمتی سے جلد ہی میرے گھر والوں کو یہ احساس ہو گیا کہ میں بھی انہی کا ایک حصہ ہوں اور وہ مجھے خود سے الگ نہیں کر سکتے۔
میں بچپن میں ہی گھر سے بھاگ کر ایک گرو کی طرف چلی گئی تھی جو میرے ہی محلے میں مقیم تھے۔ گرو نے میرے والد سے بات کی اور انہیں سمجھایا کہ جتنا زیادہ وہ مجھے دبائیں گے، میں اتنی ہی زیادہ باغی بنوں گی۔
میرے والدین مجھے سمجھنے اور اپنانے لگے تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ میں جس حالت میں رہنا پسند کروں میں اس حالت میں رہ سکتی ہوں اور انہوں نے مجھے یہ بھی کہا کہ مجھے تعلیم کو ہی اپنا مقصد بنانا چاہیے تا کہ آگے چل کر خواجہ سرا برادری کی مدد کر سکوں۔
اسکول جانا میرے لیے کوئی آسان کام نہ تھا۔ مجھ سے ناگوار رویہ برتا جاتا تھا۔ مجھے لڑکوں جیسے کپڑے پہننے پڑتے تھے اور لڑکیوں کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی۔ ٹیچرز کلاس کو تفریح فراہم کرنے کے لیے مجھے ناچنے اور گانے کا کہتے، کہ جیسے خواجہ سرا بنے ہی صرف اس کام کے لیے ہیں۔
مگر میرے لیے سب سے اہم چیز تھی والدین کا ساتھ، جس کے باعث ہی میں نے شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور سے سیاسیات اور معاشیات میں ماسٹرز مکمل کیا۔
لیکن کیا خوب ستم ظریفی کہیے اسے، کہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی جینے کی خواہش ہی میری زندگی میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی۔ میں نے سوچا تھا کہ تعلیم کے حصول سے میرے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔
میری بہنیں پروفیسرز ہیں اور میرے بھائیوں کا اپنا کاروبار ہے اور سرکاری ملازمتیں بھی ہیں۔ میری عمر 40 برس سے بھی تجاوز کر چکی ہے، یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہوں، مگر اب بھی زندگی کا چرخہ چلانے لائق روزگار کے لیے جدوجہد کر رہی ہوں۔ یہ بات نہایت درد ناک ہے۔
جب کریئر کی تلاش میں کراچی آئی تب میری توقعات کافی زیادہ تھیں۔ ہر کوئی کراچی آنا اور شہری زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ میں بھی یہی چاہتی تھی۔ یہاں آ کر مجھے میری تمام امیدیں بے معنیٰ لگنے لگیں۔ کسی قسم کی ملازمت حاصل نہ کر پانے کی وجہ سے میں رقص اور گداگری کرنے پر مجبور تھی۔
میری خوش قسمتی ہی کہیے کہ اسی عرصے کے دوران کراچی میں میری ملاقات ایک گرو اور ایک خواجہ سرا برادری سے ہوئی۔ میرے گرو نے سوچا کہ ملازمت کی تلاش کرنا فضول ہے — اور ان کے پاس اس بات کا درست جواز بھی تھا — مگر تعلیم یافتہ ہونے کے ناطے میرے دوستوں کو احساس تھا کہ مجھے کسی اور بہتر روزگار سے منسلک ہونا چاہیے۔ میرے دوست نہیں چاہتے تھے کہ میری زندگی بھی ان ہی کی طرح بن کر رہ جائے۔
صلاح مشوروں کے بعد مجھے ٹیکس وصولی افسر کی ملازمت مل گئی۔ آگے چل کر، 2014 میں کراچی ٹرانس کمیونٹی سینٹر چلانے کا کام سونپ دیا گیا، اس کمیونٹی کا آغاز حکومت سندھ کی جانب سے سماجی بہبود کی وزیر، روبینہ قائمخانی کی قیادت میں ہوا تھا۔
ہر کوئی اس بات پر پرجوش نظر آیا کہ میں حکومت کے لیے کام کر رہی ہوں، مگر حقیقت یہ ہے کہ میں جلد ہی دوبارہ بھیک مانگنے سڑکوں پر کھڑی تھی۔ مجھ سے وعدہ کیا گیا تھا کہ مجھے سینٹر پر ماہانہ 15 ہزار روپے تنخواہ دی جائے گی، مگر کچھ عرصے بعد یہ قلیل تنخواہ بھی ملنا بند ہو گئی۔
گزشتہ برس سے مجھے ایک دھیلا بھی ادا نہیں کیا گیا۔ میں نے سینٹر کو قائم رکھنے اور متحرک رکھنے کی بھرپور کوشش کی، مگر ہمیں کسی قسم کی سرگرمی کرنے کے لیے فنڈز ہی فراہم نہیں کیے گئے۔ میں نے سینٹر جانا چھوڑ دیا ہے۔
میرے والدین نے مجھے پڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، مگر آج میں انہیں پیسے بھیجنے لائق بھی نہیں ہوں۔ میں شرمساری محسوس کرتی ہوں۔ حکومت نے مجھے اور میری کمیونٹی کو ناکام بنا دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے کراچی کے اندر سرکاری ملازمتوں میں ہمارا کوٹہ 2 فیصد مقرر کیا ہے، مگر اب تک سرکاری کرسیوں پر دو خواجہ سرا بھی نہیں بیٹھے۔ مرد و خواتین کے لیے ملازمت کے اشتہار چھپتے ہیں مگر کہیں خواجہ سرا کا ذکر نہیں ہوتا۔
ہم میں سے کئی تو رجسٹرڈ شہری بھی نہیں۔ شناختی کارڈز بنوانا کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔ نادرا افسران کے بیہودہ رویوں کی وجہ سے ہم میں سے اکثر تو نادرا دفاتر کا رخ کرنا ہی پسند نہیں کرتے۔
مجھ سے جتنی ہو سکتی ہے میں اتنی ہی ان کی مدد کرتی ہوں۔ شناختی کارڈ بنوانے کے مرحلے میں مدد کرنے کے لیے میں خود اپنی کمیونٹی کے لوگوں کے ساتھ نادرا دفاتر جاتی ہوں۔ نادرا دفاتر میں خواجہ سراؤں کے لیے علیحدہ کھڑکی کا انتظام کرنے کے لیے میں نے حکومت کے ساتھ مل کر کام کیا۔ شکر ہے کہ اب چند نادرا دفاتر میں خواجہ سراؤں کے لیے علیحدہ کھڑکیوں کا انتظام موجود ہے۔
لوگ سوچتے ہیں کہ خواجہ سرا جسم فروش کے سوائے اور کچھ نہیں۔ انہیں نہیں پتہ کہ اگر ہم جسم فروشی کرتے تو ہماری زندگی کے حالات کم از کم موجودہ حالات سے تو بہتر ہوتے۔
رفی خان نے اپنی زندگی کا احوال انعم لودھی کو بتایا جنہوں نے اسے ایک بلاگ کی صورت دی۔
تبصرے (7) بند ہیں