• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

حسین نوازکی فوٹو لیک: پی ٹی آئی، ن لیگ کے ایک دوسرے پر الزامات

شائع June 5, 2017
تصویر پر 28 مئی کی تاریخ درج ہے، جب حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پہلی مرتبہ پیش ہوئے تھے—۔فوٹو/ ڈان
تصویر پر 28 مئی کی تاریخ درج ہے، جب حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پہلی مرتبہ پیش ہوئے تھے—۔فوٹو/ ڈان

اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) دونوں وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کی پاناما پیپر کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) کے سامنے پیشی کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر لیک ہونے کے معاملے پر ایک دوسرے پر الزامات عائد کر رہے ہیں۔

دونوں فریقین کا موقف ہے کہ یہ تصویر سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر لیک کی گئی۔

مذکورہ تصویر، جو کسی سی سی ٹی وی فوٹیج سے لیا گیا اسکرین شاٹ معلوم ہوتی ہے، پر 28 مئی کی تاریخ درج ہے، یہ وہی دن ہے جب حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پہلی مرتبہ پیش ہوئے تھے۔

تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم کے صاحبزادے فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے احاطے میں ایک کمرے میں بیٹھے ہیں اور تفتیش کاروں کے سوالات کا سامنا کر رہے ہیں۔

مذکورہ تصویر کی 'غیر قانونی اشاعت' پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے اسے تحقیقات کے قوانین کی 'سنگین خلاف ورزی' قرار دیا۔

اس حوالے سے وزیراعظم نواز شریف کے ترجمان مصدق ملک نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا، 'جے آئی ٹی عدلیہ کی نگرانی میں کام کر رہی ہے، لہذا یہ ججز کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان چیزوں پر توجہ دیں، جو جے آئی ٹی کے طریقہ کار کے حوالے سے شکوک وشبہات پیدا کر رہی ہیں'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم پہلے ہی اس حوالے سے سپریم کورٹ کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرچکے ہیں'۔

مزید پڑھیں: حسین نواز سےجے آئی ٹی کی 5 گھنٹے تفتیش

مصدق ملک نے سوال کیا، 'اس تصویر کو ریلیز کرنے کا مقصد کیا تھا؟' ساتھ ہی انھوں نے الزام عائد کیا کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے شریف خاندان کو بدنام کرنے کے لیے یہ تصویر سوشل میڈیا پر 'وائرل' کی۔

دوسری جانب پی ٹی آئی نے بھی اس تصویر کے لیک ہونے کی تحقیقات کا مطالبہ کردیا، اس بات کا الزام عائد کرتے ہوئے کہ یہ تصویر حکمران جماعت کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اہلخانہ کو 'مظلوم' ظاہر کرنے کے لیے جان بوجھ کر 'باقاعدہ پلاننگ' کے تحت ریلیز کی گئی، پی ٹی آئی نے ان الزامات کی تردید کردی کہ یہ تصویر ان کے کسی کارکن کی جانب سے سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی۔

پی ٹی آئی کے کارکن علی حیدر زیدی بھی اُن لوگوں میں سے ایک تھے، جنھوں نے یہ تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی۔

تاہم جب اس حوالے سے تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات شفقت محمود سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے ان الزامات کی تردید کی کہ مذکورہ تصویر ان کے کسی کارکن کی جانب سے سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ یہ حکمران جماعت کی دو رخی حکمت عملی ہے، جو عدلیہ اور جے آئی ٹی کو ایک تنازع میں گھیسٹ کر شریف خاندان کو مظلوم ثابت کرنا چاہتی ہے، شفقت محمود کا کہنا تھا، 'تصویر کا لیک ہونا دوسری حکمت عملی کا حصہ ہے'۔

حکومت کا ردعمل

ڈان سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم کے ترجمان مصدق ملک نے کہا کہ حسین نواز کی ایک ایسی تصویر ریلیز کرنا، جس میں وہ 'قابل رحم' انداز میں بیٹھے ہیں، نہ صرف غیر اخلاقی عمل ہے بلکہ 'قانون اور عدالتی اصولوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی' بھی ہے۔

انھوں نے کہا، 'اگر عدالت نگرانی کر رہی ہے تو اسے نہ صرف اس تصویر کے لیک ہونے کا نوٹس لینا چاہیے بلکہ اُن تمام دھمکیوں کا بھی نوٹس لینا چاہیے، جو لوگوں کو دستخط کرنے یا دستاویزات واپس لینے پر مجبور کرنے کے لیے دی جارہی ہیں'، یہاں وہ وزیراعظم کے کزن طارق شفیع کی جانب سے جے آئی ٹی ارکان کے خلاف لگائے الزامات کے حوالے سے بات کر رہے تھے۔

مزید پڑھیں: 'حسین نواز کو جے آئی ٹی کے 2 ارکان نے ہراساں کیا'

واضح رہے کہ طارق شفیع نے تفتیش کاروں کی جانب سے بدسلوکی کا الزام عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ جے آئی ٹی ارکان نے انھیں کہا کہ اگر وہ پاناما پیپر کیس کے سلسلے میں جمع کرایا گیا حلف نامہ واپس نہیں لیں گے تو انھیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

مصدق ملک نے بتایا کہ حکومت پہلے ہی عدالت کے سامنے اپنے تحفظات ریکارڈ کروا چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تفتیش کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی کو دستخط کرنے یا دستبردار ہونے پر مجبور کیا جائے، جے آئی ٹی کو صرف تحقیقات کرنی چاہئیں، لیکن جے آئی ٹی جو کررہی ہے، وہ قانونی اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔

ترجمان وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ وہ نہیں کہیں گے کہ تصویر کا جاری ہونا منصوبہ بندی کا حصہ تھا، لیکن 'آپ کو اعتراف کرنا پڑے گا کہ اس میں تعصب کا عنصر موجود ہے'۔

دوسری جانب وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ 'واٹس ایپ کال کے معاملے اور حسین نواز کی غیرقانونی تصویر کی ریلیز نے اس سارے عمل کی غیر جانبداری اور شفافیت کے بارے میں سنجیدہ سوالات اٹھا دیئے ہیں'۔

مزید پڑھیں:حسین نواز کی چوتھی مرتبہ پاناما جے آئی ٹی کے سامنے پیشی

ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف اور ان کا خاندان انصاف کے تمام تقاضے پورے کر رہا ہے، لیکن ان کی بے عزتی کرنے اور ان کا مذاق اڑانے کی کوششیں انسانی اور قانونی حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔

مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ اس تمام عمل کے حوالے سے اپنے تمام تر تحفظات اور بے قاعدگیوں کے باوجود وزیراعظم اور ان کا خاندان انصاف کی امید کر رہا ہے کیونکہ وہ آئین و قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔

وزیر مملکت نے دعویٰ کیا کہ 'مذکورہ تصویر اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ وہ انصاف کا انتظار کر رہے ہیں'۔

یہ خبر 5 جون 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024