پاکستان کا ہندوستان کے خلاف کیا 'چانس' ہے؟
"پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ الا للہ۔ نعرہ تکبیر اللہ اکبر! پاکستان زندہ آباد۔"
جیسے ہی میچ شروع ہوتا ہے تو پاکستانی کرکٹ کے ان مخصوص نعروں کی گونج اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ 2009 کی خزاں میں ہم چند پاکستانی ہندوستانیوں سے بھرے بر دبئی کے ایک ہوٹل میں میچ دیکھ رہے تھے۔
ہندوستان کے خلاف شعیب ملک پرسکون ہو کر اپنے مخصوص انداز میں کھیل رہے تھے جبکہ محمد یوسف اپنی کلاس کا مظاہرہ کر رہے تھے اور یوں آئی سی سی کی میزبانی میں ہونے والے اس مقابلے میں پاکستان نے ہندوستان کو چت کر کے نایاب فتح اپنے نام کی۔
ایک وقت پر تو میچ ہندوستان کے حق میں تھا اور اسکور کی حالت 4 -1 تھی۔ ہندوستان پاکستان کو ورلڈ کپ کے چاروں میچوں میں شکست دے چکا ہے جبکہ پاکستان نے گزشتہ چیمپیئنز ٹرافی کے مقابلے میں جیت حاصل کی۔
آئی سی سی کی زیر میزبانی ہونے والے کرکٹ میچوں میں پاکستان، ہندوستان کے خلاف کھیلے جانے والے 9 ایک روزہ میچوں میں سے 7 میں شکست کھا چکا ہے. ورلڈ کپ میچوں می ہندوستان کی صورتحال 0-6 ہے جبکہ آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کے میچوں میں پاکستان کی صورتحال 1-2 ہے۔
ٹاس جیتو۔ میچ میں فتح حاصل: وہ ٹیم جو ٹاس میں جیتی ہے وہ 9 میچوں میں سے 8 میچوں میں فتح یاب ہوئی ہے۔
ٹاس جیتو۔ پہلے بلے بازی کا انتخاب: 9 میں سے 7 بار ٹاس جیتنے والی ٹیم نے پہلے بلے بازی کا انتخاب کیا ہے۔ ہندوستان نے ایک بار انگلینڈ کے میدان پر گرمیوں کے برساتی موسم میں پاکستان کو پہلے بلے بازی کرنے کو کہا اور ڈک ورتھ لوئس میتھڈ کے تحت 22 اوورز تک محدود کردیے جانے والے اس میچ میں ہندوستان جیت گیا۔
جہاں ہندوستان کے خلاف آئی سی سی میچوں میں پاکستان کی کارکردگی زیادہ بہتر نہیں ہے، وہاں اگر پاکستان کے مجموعی ایک روزہ میچوں کی بات کریں تو صورتحال کافی بہتر ہے۔ پاکستان ہندوستان کے خلاف 41 فیصد دیگر میچوں میں کامیابی حاصل کر چکا ہے جبکہ یہ پاکستان کے خلاف ہندوستان کی شرح کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اسکور 72 – 51 کے ساتھ پاکستان کے حق میں ہے۔
پاکستانی ٹیم بھلے ہی ایک روزہ کرکٹ کی پہلی چار دہائیوں کے دوران بڑی حد تک مضبوط ٹیم رہی ہو، لیکن ہندوستانی ٹیم گزشتہ 7 برسوں میں دنیائے کرکٹ پر زیادہ غالب ٹیم رہی ہے۔ دونوں ٹیموں کے درمیان جاری اس جنگ میں یہ واحد ایسا وقت ہے جس میں ہندوستان برابری حیثیت کے ساتھ پاکستان پر سبقت رکھتا ہے۔ مگر، رواں دہائی کے دوران دونوں پڑوسیوں کے درمیان بہت ہی کم کرکٹ کھیلی گئی ہے۔
ماضی قریب کی ہندوستانی ٹیم نے ہندوستان کے لیے اپنے پڑوسیوں سے دوری مٹانے کا ایک بہترین موقع پیش کیا۔ مگر دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی تناؤ اور خاص طور پر ہندوستانی کرکٹ بورڈ کے مؤقف کی وجہ سے ہندوستان یہ موقع حاصل کرنے سے رہ گیا ہے۔
جہاں تاریخ تو بس ایک اشاریے کی حیثیت رکھتی ہو، وہاں موجودہ رینکنگ ایک واضح جائزہ پیش کرتی ہیں کہ اس وقت دونوں ٹیمیں کہاں کھڑی ہیں۔
ہندوستانی ٹیم بین الاقوامی درجہ بندی میں تیسرے نمبر پر ہے اور پاکستان بنگلہ دیش کے نیچے 8 نمبر پر ہے۔
اس وقت جاری چیمپیئنز ٹرافی میں کوالیفیکیشن کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان کو ایک سیریز منسوخ کرنی پڑی، جبکہ 2018 ورلڈ کپ کے لیے براہ راست کوالیفیکیشن اب بھی خطرے میں ہے۔
ایسے حالات میں ہندوستانی ٹیم ضرور فیورٹ ٹیموں میں شامل ہو جائے گی۔
لیکن، ہندوستان اور پاکستان کے درمیان میچ میں، پریشر کا غیر معمولی عنصر شامل ہوتا ہے۔ ایک بار ٹیموں کے میدان پر اترنے کے بعد، تاریخ، درجہ بندیاں، اعداد، کمزوریاں، سب کچھ بس باتیں بن کر رہ جاتی ہیں۔ سب سے اہم ترین چیز یہی ہوتی ہے کہ دونوں ٹیموں پر لگی 1 ارب سے بھی زائد لوگوں کی نظروں کا بوجھ سنبھالنے کے لیے کون سی ٹیم کس قدر تیار ہے۔
برصغیر کی یہ کرکٹ دشمنی کھلاڑیوں کو ہیروز بننے کا بھی موقع فراہم کرتی ہے، اور ولن بننے کا رسک بھی لینے پر للچاتی ہے۔ کرکٹ مقابلوں کی ماں کی حیثیت رکھنے والے پاک و ہند کرکٹ مقابلے کھلاڑی کو جاوید میانداد بنا دیتے ہیں یا پھر عامر سہیل میں بھی بدل دیتے ہیں۔
آپ راتوں رات شاہد آفریدی بن جاتے ہیں یا پھر ہمیشہ کے لیے مصباح الحق بن جاتے ہیں۔ جبکہ ان کی کارکردگی دیکھنے والوں کی یادوں میں ہمیشہ کے لیے بس جاتی ہیں۔
پاکستان کو امید ہے کہ نوجوان بلے باز بابر اعظم ٹیم میں شامل ہو کر ٹیم کو مشکل میں مدد دینے کے لیے کھڑے ہوں گے۔ یہ دیکھنا بھی دلچسپ ہوگا کہ انہیں بلے بازی میں کون سے نمبر رکھا جاتا ہے، اپنے مختصر کریئر میں بابر کی بیٹنگ پوزیشن میں مستقل مزاجی نظر نہیں آئی۔
ہندوستان گوناگوں میچز میں فتح حاصل کر چکا ہے اور ان میں سے ایک پر بھی جائزہ پاکستان کے لیے مقابلہ مشکل بنا دے گا۔ اگر پاکستان کو جیتنا ہے تو اسے اپنے تمام باصلاحیت ہتھیاروں کے ساتھ میدان میں اترنا ہوگا۔
ایجبیسٹن کے حالیہ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ پچ کافی شاندار ہوگی اور گراؤنڈ میں بھرے کھچا کھچ تماشائیوں کو بے تحاشہ رنز سے محظوظ ہونے کا موقع ملے گا۔
انگلینڈ میں گرمیوں کے دوران موسم کا کچھ پتہ نہیں ہوتا اور برمنگھم میں ویک اینڈ کے دوران برسات متوقع ہے۔ یوں ایک بار پھر ٹاس ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
2009 کے ہندوستان بمقابلہ پاکستان چیمپیئنز ٹرافی میچ کے اختتام تک اس ہوٹل میں بہت ہی تھوڑے لوگ رہ گئے تھے جن میں تقریباً سارے ہی پاکستانی تھے۔ میرے کافی اچھے ہندوستانی دوست، سیف اور حوریز، جنہوں نے مجھے وہاں دعوت دی تھی، نے مجھ سے پوچھا کہ کرکٹ میچ سے مذہبی نعروں کا تعلق ہے۔
میں نے بھی اپنے، شعیب ملک والے، پرسکون انداز میں کہا کہ، 'ہم ایک مسلمان ملک ہیں اور خدا ہمارے ساتھ ہے۔' میرے دوستوں نے مجھے یاد دلایا کہ وہ بھی مسلمان ہیں اور ممکن ہے کہ ہندوستان میں بھی پاکستان سے زیادہ مسلمان مقیم ہوں، نہیں تو کم از کم اتنی ہی تعداد میں تو مسلمان رہتے ہی ہیں۔
میرے پاس انہیں دینے کے لیے کوئی جواب نہ تھا، کیونکہ وہ درست تھے اور میری لاعلمی کا تقاضا تھا۔ مگر جواباً میں نے بلند آواز میں 'نعرہ تکبیر' کا نعرہ لگایا۔ آخر میں بھی تو نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں نعرے لگاتے اور شور مچاتے ہی بڑا ہوا تھا۔
یہ آخری بار تھا کہ جب پاکستان نے آئی سی سی کرکٹ دورے میں ہندوستان کو میچ میں شکست دی تھی۔
یہ 8 برس پہلے کی بات تھی۔