چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستان نے کیا کھویا، کیا پایا؟
زندگی کی رہ گذر ہو یا کھیل کا میدان، بھلا کامیابی کسے اچھی نہیں لگتی، اکثر ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ ان ناکامیوں کا تذکرہ کیا کرنا جو دل پہ گراں گزریں، اور ان محرومیوں کو یاد کر کے کیا حاصل جن سے ناخوشگوار یادوں کے بند دریچے ایک مرتبہ پھر سے کھل جائیں۔
لیکن کیا کریں جناب، اگر ناکامیوں کی تلخ یادیں نہ ہوں تو کامیابی کی مٹھاس کا مزہ بھی کرکرہ سا ہوجاتا ہے اور اگر بات کی جائے حالیہ چیمپیئنز ٹرافی کی تو اس بار رسم دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے۔
کرکٹ نے جس ملک میں جنم لیا اسی برطانوی سرزمین پر یکم جون سے تیسری بار اور مجموعی طور پر چیمپیئنز ٹرافی کا آٹھواں میلہ شروع ہو چکا ہے-
یہ دلچسپ میگا ایونٹ جسے ابتدا میں 2 مرتبہ ناک آؤٹ ٹورنامنٹ یا منی ورلڈ کپ کے نام سے منعقد کروایا گیا، اپنے مختصر فارمیٹ اور دلچسپ مقابلوں کی وجہ سے گزشتہ 19 برسوں سے اپنی اہمیت و مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔
بیتے 19 برسوں میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی آئی سی سی ناک آؤٹ (چیمپیئنز ٹرافی) کی ٹرافی ہاتھوں میں تھامنے کی خواہش حقیقت کا روپ نہ دھار سکی -
گو کہ سال 2000، 2004 اور 2009 کے تین ایونٹس میں قومی ٹیم نے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی لیکن فائنل کھیلنے اور ٹائٹل جیتنے کا خواب اب تک شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔
1998 سے 2013 کے چیمپیئنز ٹرافی ایونٹ تک پاکستان نے مجموعی طور پر 16 میچز کھیلے جن میں سے صرف 7 میچوں میں کامیابی نصیب ہوئی جبکہ 9 میچوں میں قومی ٹیم شکست کے بھنور میں پھنس گئی اور انہی ناکامیوں نے گرین شرٹس کو آگے بڑھنے اور ٹائٹل جیتنے سے روکے رکھا۔
آئی سی سی ناک آؤٹ ٹرافی 1998
یوں تو 50 اوورز کے فارمیٹ کا ورلڈ کپ ہر چوتھے سال پوری آب و تاب سے ہوتا رہتا ہے لیکن سنہ 1998 میں آئی سی سی حکام نے سوچا کہ جو ممالک ٹیسٹ کرکٹ کا درجہ نہیں رکھتے ان کی ترقی، فلاح و بہبود کے لئے کیوں نہ ایک مختصر کرکٹ ٹورنامنٹ منعقد کیا جائے تاکہ جو آمدنی حاصل ہو وہ ان چھوٹے ممالک پر استعمال کی جائے۔
اسی مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے پہلی بار بنگلہ دیش میں آئی سی سی ناک آؤٹ ٹرافی کے نام سے ٹیسٹ کھلینے والی ٹیموں کے مابین ون ڈے ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا گیا۔
چونکہ اس وقت ٹیسٹ کا درجہ رکھنے والی ٹیموں کی تعداد 9 تھی تو 7 ٹیموں کو براہ راست کوارٹر فائنل مرحلے تک رسائی دی گئی۔
آٹھویں ٹیم کی سیٹ پر قبضہ جمانے کے لیے نیوزی لینڈ اور زمبابوے کی ٹیمیں پری کوارٹر فائنل میچ میں مدمقابل ہوئیں جس میں کیوی ٹیم نے 5 وکٹ سے باآسانی فتح سمیٹ کر کوارٹر فائنل راؤنڈ تک رسائی حاصل کی۔
قومی ٹیم ایونٹ میں عامر سہیل کی قیادت میں شریک ہوئی اور واحد ناک آؤٹ میچ میں ویسٹ انڈیز کا چیلنج درپیش تھا۔
ڈھاکا کے بنگا بندھو نیشنل اسٹیڈیم میں غلطی کی کوئی گنجائش نہ تھی مگر گرین شرٹس کو کالی آندھی کے ہاتھوں 30 رنز سے شکست کی ہزیمت برداشت کرنا پڑی اور ساتھ ہی ساتھ واپسی کا ٹکٹ بھی تھما دیا گیا۔
برائن لارا کی زیر قیادت کھلینے والی ویسٹ انڈیز ٹیم نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 9 وکٹوں کے نقصان پر 289 رنز اسکور کیے جس میں فلے والس کی 58 گیندوں پر 79 رنز کی برق رفتار اننگز شامل تھی۔ جارحانہ اوپنر نے 13 بار گیند کو باؤنڈری کا رستہ دکھایا جبکہ چندرپال نے 49 رنز کی قابل ذکر اننگز کھیلی-
پاکستانی اٹیک وسیم اکرم، اظہر محمود، ثقلین مشتاق، ارشد خان، شاہد خان آفریدی اور سلیم ملک جیسے منجھے ہوئے باؤلرز پر مشتمل تھا لیکن پھر بھی ویسٹ انڈیز کی ٹیم ایک اچھا مجموعہ ترتیب دینے میں کامیاب رہی۔
قومی ٹیم نے جواب میں آخری اوور تک ہدف تک پہنچنے کی سر توڑ کوشش کی مگر 9 وکٹوں کے نقصان پر 259 رنز سے زیادہ نہ بنا سکی۔
اعجاز احمد کے 51 اور سلیم الٰہی کے 46 رنز کے علاوہ باقی سارے سکے کھوٹے نکلے۔ شاہد آفریدی 4، اظہر محمود 20، کپتان عامر سہیل 12، اختر سرفراز 14، سلیم ملک 15، وسیم اکرم 10 اور معین خان 25 رنز تک کریز پر مہمان رہے۔
ویسٹ انڈیز کے کیتھ اتھرٹن 4 شکار کرنے پر میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔
1998 کی آئی سی سی ناک آؤٹ ٹرافی جنوبی افریقہ کے نام رہی اور ایونٹ سے حاصل شدہ رقم کا کچھ حصہ بنگلادیش میں سیلاب سے متاثرہ ہزاروں افراد کی از سر نو رہائش اور دیگر امدادی کاموں پر خرچ کیا گیا۔
آئی سی سی ناک آؤٹ ٹرافی 2000
سنہ 2000 کے آئی سی سی ناک آؤٹ ٹرافی ایونٹ میں معین خان کی زیر قیادت گرین شرٹس کی کارکردگی قدرے بہتر رہی لیکن اس بار سیمی فائنل مرحلے میں سفر تمام ہوا۔
ایونٹ کا دوسرا کوارٹر فائنل پاکستان اور سری لنکا کے مابین کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے جیمخانہ کلب میں کھیلا گیا جس میں قومی ٹیم نے 9 وکٹوں سے فتح سمیٹی۔
سری لنکن بیٹنگ لائن پاکستان کے مضبوط باؤلنگ اٹیک کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور 46 ویں اوور میں 194 رنز پر پوری ٹیم پویلین جا پہنچی۔
گرین شرٹس کی جانب سے وسیم اکرم اور اظہر محمود نے 3- 3 وکٹیں حاصل کی، جبکہ ثقلین مشتاق 2 اور ارشد خان ایک وکٹ لینے میں کامیاب رہے۔
پاکستان نے اسٹائلش اوپنر سعید انور کی شاندار سنچری کی بدولت 44 ویں اوور میں صرف ایک وکٹ کے نقصان پر مطلوبہ ہدف حاصل کر کے سیمی فائنل کے لئے کوالیفائی کیا۔
سعید انور 12 چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 105 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے، جبکہ یوسف یوحنا (حالیہ محمد یوسف) نے بھی ناقابل شکست 42 رنز کی اننگز کھیلی۔ آؤٹ ہونے والے واحد بلے باز عمران نذیر نے 40 رنز بنائے۔
کوارٹر فائنل کے ہیرو سعید انور نے سیمی فائنل میں مسلسل دوسری سینچری اسکور کرتے ہوئے قومی ٹیم کو ایک اچھی شروعات فراہم کی مگر کیوی باؤلنگ اٹیک نے پاکستان کی پیش قدمی 252 رنز پر روک دی ۔
دیگر بلے باز عبدالرزاق 48، وسیم اکرم 34، یوسف 24 اور عمران نذیر21 رنز کی مختصر اننگز کھیل کر پویلین لوٹے۔ کیوی فاسٹ باؤلر بیری او کونر نے 5 وکٹوں کا بٹوارا کر کے پاکستان کو خاصا نقصان پہنچایا۔
253 رنز کا ہدف کیوی ٹیم نے دلچسپ مقابلے کے بعد آخری اوور میں 6 وکٹوں کے نقصان پر حاصل کر لیا اور فائنل میں جگہ بنالی۔ راجر ٹوز، کریگ میک ملن کی نصف سینچریوں اور ناتھن ایسٹل کی 49 رنز کی اننگز نے فتح میں اہم کردار ادا کیا۔
نیوزی لینڈ نے فائنل میں کرس کینز کی عمدہ اننگز کی بدولت بھارت سے ہاری ہوئی بازی چھینتے ہوئے 4 وکٹوں سے کامیابی حاصل کر کے ٹرافی جیت لی۔
چیمپیئنز ٹرافی 2002
آئی سی سی ناک آؤٹ ٹورنامنٹ کو سنہ 2002 میں چیمپیئنز ٹرافی کا نام دیا گیا جس میں ٹیسٹ کا درجہ رکھنے والے 8 ممالک سمیت 12 ٹیموں نے شرکت کی، 4 نئی ٹیموں کینیا، زمبابوی، ہالینڈ اور بنگلہ دیش کو بھی چیمپیئنز ٹرافی کا حصہ بنایا گیا۔ پاکستان کو پول فور میں رکھا گیا تھا۔
سری لنکا کے خلاف پول میچ پاکستان کے لئے 'ڈو آر ڈائی' کی حیثیت رکھتا تھا لیکن وقار یونس کی قیادت میں قومی ٹیم وہ میچ 8 وکٹوں سے ہار گئی۔ سعید انور، شاہد آفریدی، شعیب ملک، یوسف، یونس خان، راشد لطیف، مصباح الحق، عبدالرزاق اور وسیم اکرم پر مشتمل لمبی بیٹنگ لائن 200 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔
سری لنکا نے کپتان سنتھ جے سوریا کی سنچری کی بدولت 37 ویں اوور میں صرف 2 وکٹ گنوا کر ہدف باآسانی حاصل کر لیا۔
دوسرے پول میچ میں قومی ٹیم نے سارا غصہ ہالینڈ پر اتار دیا اور 9 وکٹوں سے کامیابی حاصل کی لیکن اس کے باوجود اگلے مرحلے تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہی۔
ہالینڈ کی ٹیم 136 رنز پر میدان بدر ہوئی جبکہ پاکستان نے عمران نذیر اور شاہد آفریدی کی برق رفتار نصف سنچریوں کی مدد سے 17 ویں اوور میں مطلوبہ ہدف عبور کرلیا۔
2002 میں چیمپیئنز ٹرافی کا فائنل کولمبو میں طوفانی بارش کے باعث بے نتیجہ رہا اور فائنل میں پہنچنے والی دونوں ٹیموں بھارت اور سری لنکا کو مشترکہ طور پر فاتح قرار دیا گیا۔
چیمپیئنز ٹرافی 2004
2000 کی طرح 2004 کی چیمپیئنز ٹرافی میں بھی قومی ٹیم سیمی فائنل مرحلے تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
2004 کی چیمپیئنز ٹرافی میں امریکا کی کرکٹ ٹیم نے پہلی بار حصہ لیا۔
انگلینڈ میں منعقدہ یہ ایونٹ اس لحاظ سے بھی یادگار رہا کہ گرین شرٹس نے کینیا کو شکست دینے کے بعد دوسرے بڑے معرکے میں روایتی حریف بھارت کو بھی چاروں شانے چت کیا۔
انضمام الحق کی قیادت میں قومی ٹیم نے پول میچ میں کینیا کو 7 وکٹوں سے شکست دی، جبکہ بھارت کے خلاف اہم ترین معرکے میں سنسنی خیز مقابلے کے بعد آخری اوور میں 4 وکٹوں سے فتح سمیٹ کر سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کیا۔
ایجبسٹن (برمنگھم) میں رانا نوید الحسن کی 4 وکٹوں نے بھارتی ٹیم کو ایسا جھٹکا دیا کہ پوری ٹیم 200 رنز پر سمٹ گئی۔
راہول ڈراوڈ 67 اور ٹیل اینڈر اجیت اگارکر 47 رنز اور آٹھویں وکٹ کیلئے 82 رنز کی شراکت کی بدولت ہندوستانی ٹیم 200 رنز بنانے میں کامیاب رہی۔ وریندر سہواگ، وی وی ایس لکشمن، محمد کیف، یوراج سنگھ، روھن گواسکر اور عرفان پٹھان فلاپ ثابت ہوئے۔
پاکستان نے مطلوبہ ہدف حاصل کرنے کے لیے کم و بیش 50 اوور خرچ کر ڈالے۔ یوسف یوحنا (محمد یوسف) نے 81 اور کپتان انضمام الحق کی 41 رنز کی فتح گر اننگز کی بدولت قومی ٹیم آخری اوور میں سرخرو ہوئی۔
سیمی فائنل میں ویسٹ انڈیز کے خلاف انضمام الحق نے ہری بھری وکٹ پر ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور قومی ٹیم کا 131 رنز پر شیرازہ بکھر گیا اور کالی آندھی نے 7 وکٹوں سے کامیابی کو گلے لگا کر نہ صرف فائنل کے لیے کوالیفائی کیا بلکہ برائن لارا کی قیادت میں ایونٹ کا ٹائٹل بھی جیتا۔
چیمپیئنز ٹرافی 2006
سنہ 2006 میں ہندوستان میں کھیلی جانے والی چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستان کو تین گروپ میچوں میں سے 2 میں نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا جبکہ سری لنکن ٹیم آسان شکار ثابت ہوئی جس کے خلاف گرین شرٹس کو 4 وکٹوں سے کامیابی ملی۔
میگا ایونٹ میں ٹیم کے کپتان یونس خان تھے اور گرین شرٹس پہلے راؤنڈ سے آگے نہ جا سکے۔
اس بار آسٹریلیا نے فائنل میں ویسٹ انڈیز کو مات دے کر پہلی بار چیمپیئنز ٹرافی کا ٹائٹل اپنے نام کیا۔
چیمپیئنز ٹرافی 2009
2009 کی چیمپیئنز ٹرافی میں یونس خان کی زیر قیادت قومی ٹیم 3 میں سے دو میچوں میں کامیاب رہی اور سیمی فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔
بعد ازاں جوہانسبرگ میں نیوزی لینڈ کے ہاتھوں 5 وکٹوں سے شکست ملنے کے باعث تیسری بار فائنل کھلینے کی خواہش ادھوری رہ گئی۔
سیمی فائنل سے پہلے قومی ٹیم نے گروپ میچ میں سینچورین کے میدان میں شعیب ملک کی شاندار سنچری کے طفیل روایتی حریف بھارت کو 54 رنز سے شکست سے دوچار کیا اور ویسٹ انڈیز کے مدمقابل 5 وکٹوں سے کامیابی حاصل کی۔
تیسرے گروپ معرکے میں پاکستان نے آسٹریلیا کو 206 رنز کا ہدف دیا جس کے تعاقب میں آسٹریلیا نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد میچ کی آخری گیند پر فتح حاصل کی۔ ہسی نے 64 رنز کی اننگز کھیل کر مرد میدان رہے تھے۔
2006 کی طرح آسٹریلیا نے مسلسل دوسری بار چیمپیئنز ٹرافی پر قبضہ جمایا۔ فائنل میں نیوزی لینڈ کو 6 وکٹوں سے شکست ہوئی۔
چیمپیئنز ٹرافی 2013
پورے 4 سال بعد 2013 میں ساتویں چیمپیئنز ٹرافی انگلینڈ کی سرزمین پر کھیلی گئی جس میں مصباح الحق کی زیر قیادت حصہ لینے والی قومی ٹیم کا ریکارڈ بدترین رہا۔
گرین شرٹس گروپ بی میں اپنے تینوں میچوں میں بری طرح ناکام رہے اور ناک آؤٹ ہو کر واپس لوٹے۔
مداحوں کو اس بات کا افسوس زیادہ ہوا کہ 2013 کی چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستان کو بھارت نے بھی شکست دی اور ماضی کی 2 ناکامیوں کا بدلہ لے لیا۔
بھارت کے ہاتھوں 8 وکٹوں سے شکست کا داغ لگنے سے پہلے قومی ٹیم کو ویسٹ انڈیز اور جنوبی افریقہ نے بھی چاروں شانے چت کر کے واپسی کا رستہ دکھایا۔
ایونٹ میں پاکستانی ٹیم اپنی مہم آغاز اس مرتبہ روایتی ہندوستان کے خلاف میچ سے کر رہی ہے۔ موجودہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ایونٹ میں گو کہ قومی ٹیم سے بہت کم توقعات وابستہ ہیں لیکن سرفراز کی زیر قیادت پاکستانی ٹیم ہونی کو انہونی میں بدل کر پہلی مرتبہ چیمپیئنز ٹرافی جیتنے کا خواب کو حقیقت بنا سکتی ہے۔
تبصرے (4) بند ہیں