افغان دارالحکومت میں کار بم دھماکا، 90 افراد ہلاک
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں جرمن سفارت خانے کے قریب کار بم دھماکے کے نتیجے میں 90 افراد ہلاک اور 400 افراد زخمی ہوگئے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق دھماکا کابل میں اس مقام پر ہوا ہے جہاں متعدد ممالک کے سفارت خانے، سرکاری دفاتر اور اعلیٰ حکومتی شخصیات کی رہائش گاہیں قائم ہیں۔
رپورٹ میں افغان حکام کے حوالے سے بتایا گیا کہ کار بم دھماکے میں کم سے کم 90 افراد ہلاک اور 400 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
وزارت صحت کے ترجمان وحید مجروح کی جانب سے دھماکے میں ہلاک ہونے والے افراد کی بتائی گئی تعداد کی دیگر سرکاری ذرائع نے بھی تصدیق کردی۔
ادھر وزارت خارجہ نے زخمیوں کی بڑی تعداد کے پیش نظر عوام سے خون کے عطیات دینے کی درخواست کی۔
رپورٹ کے مطابق علاقے کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب یہاں لوگوں کی بڑی تعداد دفاتر کو جارہی تھی۔
اس میں مزید بتایا گیا ہے کہ دھماکے میں فرانسیسی اور جرمن سفارت خانوں کو نقصان پہنچا ہے۔
مزید پڑھیں: افغانستان: فوجی کیمپ پر حملے میں 10 اہلکار ہلاک
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق کار بم دھماکے میں جرمن سفارت خانے کو نشانہ بنایا گیا۔
کابل پولیس کے ترجمان بصیر مجاہد کے مطابق دھماکا جرمن سفارت خانے کے قریب ہوا جس کے اطراف میں دیگر سرکاری اداروں کے دفاتر اور دیگر کمپاؤنڈ قائم ہیں۔
دوسری جانب افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش نے بتایا کہ کار بم دھماکا صبح 8 بجکر 25 منٹ پر ہوا، انھوں نے متعدد ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ابتدائی معلومات کے مطابق 40 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
جرمن سیکیورٹی ذرائع کا کہنا تھا اب تک کی معلومات کے مطابق کابل میں ہونے والے کار بم دھماکے میں سفارت خانے کے جرمن ملازمین محفوظ ہیں لیکن سفارت خانے کے کچھ مقامی ملازمین زخمی ہوئے۔
مقامی میڈیا کے مطابق دھماکے کی جگہ سے دھوئیں کے بادل اٹھتے ہوئے دیکھے گئے جو اس قدر شدید تھا کہ قریبی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔
اس سے قبل افغانستان کے نشریاتی ادارے طلوع نیوز نے اپنی ایک رپورٹ میں وزارت صحت کے عہدیدار کے حوالے سے دھماکے میں 80 سے زائد افراد کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ 380 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے، ساتھ ہی انھوں نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا۔
دھماکے کے مقام پر امدادی سرگرمیوں کا آغاز کردیا گیا، افغان فورسز کی بڑی تعداد بھی جائے وقوعہ پر پہنچ گئی اور علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔
دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ٹوئٹ کہا کہ خدا کے فضل سے دھماکے میں ہندوستانی سفارتی عملہ محفوظ رہا۔
واضح رہے کہ فوری طور پر کسی گروپ یا تنظیم نے کابل دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، تاہم کابل دھماکے میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے افغان طالبان کا کہنا تھا کہ وہ حملوں میں عام شہریوں کو نشانہ نہیں بناتے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کی مذمت
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے جاری بیان کے مطابق سربراہ پاک فوج جنرل قمر جاوید باجوہ نے کابل دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے اس واقعے میں قیمتی جانوں کے زیاں پر افسوس کا اظہار کیا۔
اس کے علاوہ انھوں نے دھماکے میں پاکستانی سفارت خانے کو پہنچنے والے نقصان پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم افغان بھائیوں اور ان کی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ کھڑے ہیں جو دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔
پاکستان کی مذمت
اس سے قبل پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے ایک جاری بیان میں کابل دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کابل میں صبح ہونے والے دھماکے میں بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔
ترجمان دفتر خارجہ دھماکے میں پاکستانی سفارتکاروں کی رہائشگاہوں کو بھی نقصان پہنچا۔
ان کا کہنا تھا کہ دکھ کی اس گھڑی میں افغان بھائیوں کے ساتھ ہیں۔
یاد رہے کہ 28 مئی 2017 کو ماہ رمضان المبارک کے پہلے ہی روز افغانستان میں صوبائی سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر کیے جانے والے خودکش حملے میں 18 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
اس سے قبل 23 مئی کو قندھار میں فوجی بیس کیمپ پر مسلح شدت پسندوں کے حملے میں بھی 10 افغان فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان کے حملے میں 100 سے زائد افغان فوجی ہلاک و زخمی
جبکہ اس سے ایک دن پہلے 21 مئی کو افغانستان کے جنوبی صوبے زابل میں طالبان جنگجوؤں نے مختلف سیکیورٹی چیک پوسٹس پر بیک وقت حملہ کرتے ہوئے 20 پولیس اہلکاروں کو ہلاک کردیا تھا۔
یہ بھی یاد رہے کہ افغان طالبان نے گزشتہ ماہ اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ موسم بہار کے حملوں کا آغاز کرنے والے ہیں جس کے دوران کارروائیوں کا سلسلہ تیز کردیا جائے گا۔
گزشتہ ماہ شمالی صوبے بلخ میں طالبان کے حملے میں 135 سیکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ افغانستان میں سیکیورٹی فورسز کو ایک اور مشکل سال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
واضح رہے کہ حال ہی میں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے وائٹ ہاؤس سے درخواست کی ہے کہ طالبان کے خلاف جنگ میں آنے والے تعطل کو ختم کرنے کے لیے مزید ہزاروں امریکی فوجی افغانستان بھیجے جائیں۔
یاد رہے کہ دسمبر 2014 میں افغانستان سے بڑی تعداد میں غیر ملکی افواج کا انخلاء ہوا تھا تاہم یہاں مقامی فورسز کی تربیت کے لیے امریکی اور نیٹو کی کچھ فورسز کو تعینات رکھا گیا۔
اس وقت افغانستان میں 8400 امریکی فوجی جبکہ 5000 نیٹو اہلکار موجود ہیں جبکہ چھ برس قبل تک افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔