ایک 'خیالی' کہانی، عمران خان کی زبانی
گزشتہ ہفتے ایک جلسے میں نوجوانوں سے خطاب میں عمران خان گزرے زمانے میں دنیا میں پاکستان کی شاندار حیثیت کے قصے سنانے لگے۔ انہوں نے کہا کہ شاید نوجوانوں کو یہ بات یاد نہ ہو، مگر ایک ایسا بھی دور تھا کہ جب ایئر پورٹ پر امریکی صدر خود پاکستانی صدر کا استقبال کرنے کے لیے آتے تھے۔
انہوں نے خوشگوار انداز میں کہا، ’ایسا بھی ٹائم ہوتا تھا’۔ عمران خان اکثر موجودہ پاکستان کی کمزور حیثیت، جس کا الزام وہ موجودہ قیادت کے معیار پر لگاتے ہیں، کو نمایاں کرنے کے لیے یہ کہانی سناتے رہتے ہیں۔
انہوں نے ایوب خان کی جانب سے 1961 میں امریکا کے اس دورے کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہا تھا، کہ تب ایوب خان کو حقیقی طور پر شاندار اعزاز سے نوازا گیا تھا اور کئی مواقع پر کینیڈی خاندان کے ساتھ اچھے ذاتی تعلقات سے بھی محظوظ ہوئے تھے۔
ہم سب اس دور کی تصاویر دیکھ چکے ہیں۔ سوٹ بوٹ، مے نوشی کی دعوتیں، ریاستی دعوتیں، اسموکنگ جیکٹس، کینیڈی کی اہلیہ کے ساتھ گھڑ سواری، کھلی چھت والی لیمو میں جان ایف کینیڈی کے ساتھ سواری (جان ایف کینیڈی، شاید یہ کوئی اچھا خیال نہ تھا) ڈوائیٹ ڈی آئزن ہوور کے ساتھ ہنسی مذاق ہو رہا ہے تو دوسری جگہ لنڈن بی جانسن کے گال پر شرارتی انداز میں تھپڑ مارا جا رہا ہے۔ ایوب خان کی پرکشش شخصیت سے کون انکار کر سکتا ہے؟
صرف عمران ہی نہیں بلکہ کینیڈی اور ایوب کے پرانے گہرے تعلقات گزشتہ چند برسوں سے دنیا میں ہماری شان و شوکت کے زوال پر اظہار افسوس عام کرتی ایک پرانی یادگار بن چکے ہیں۔
ایک ٹی وی اینکر نے ایک بار نواز شریف اور ایوب کے امریکی دوروں کے موازنے پر ایک پورا شو کیا، اس میں انہوں نے امریکا میں ایک ٹریفک پولیس سارجنٹ کی جانب سے استقبال کیے جانے پر موجودہ وزیر اعظم کو مذاق کا نشانہ بھی بنایا۔
مبشر لقمان جیسے پروٹوکول کے شوقین اینکروں کو یہ جان لینا چاہیے کہ امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ یا محکمہ خارجہ کی جانب سے بیرون ملک نمائندگان کی رینکنگ کے لحاظ سے غیر ملکی دورے پانچ درجوں میں تقسیم ہیں۔ ’ریاستی دورہ’ جو کہ اعزازات سے بھرپور ہوتا ہے، (جیسا کہ ایوب خان کا دورہ تھا) سب سے اونچی رینکنگ کا حامل دورہ ہے اور صرف ریاست کے سربراہ کے لیے مخصوص ہوتا ہے، جبکہ ’سرکاری کام کے سلسلے میں ہونے والے دورے’ جیسا کہ نواز شریف نے کیا تھا، کافی سادہ یا رسمی سا ہوتا ہے۔
70 سالوں میں پاکستان کے حصے میں تین ریاستی دورے آئے ہیں، دو بار ایوب خان کو ریاستی دورے کا اعزاز دیا گیا جبکہ ضیا الحق کو یہ اعزاز ایک بار حاصل ہوا، ہر بار سربراہ ایک فوجی آمر ہی تھا۔ چند افراد کے نزدیک یہ بات جتنا ہمارے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہے اتنا ہی امریکیوں کے بارے میں بھی بتاتی ہے۔
کسی دور میں مضبوط، آزاد اور دنیا میں اپنی حیثیت منوانے کی راہ پر گامزن اور اپنے اندر موجود اتحاد کی وجہ سے محترم اور ایک خود دار قوم ہونے کی کہانی کافی پرکشش سی لگتی ہے۔ افسوس کے ساتھ اس میں حقیقت زیادہ نہیں۔
عمران خان اور مبشر لقمان ابتدائی امریکا پاکستان تعلقات اور پیچیدہ سرد جنگ، جس کے دوران یہ تعلقات قائم ہوئے، کے خد و خال کے بارے میں کس حد تک سمجھ بوجھ رکھتے ہیں اس کا ہم صرف اندازہ ہی لگا سکتے ہیں، مگر آپ کو یہ خدشا پیدا ہوگا کہ انہوں نے ظاہری تصاویر سے ہٹ کر گہرائی سے معاملات پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
پڑھیے: پاکستان کا ڈونلڈ ٹرمپ کون؟
امریکیوں پر کڑی تنقید کرنے والے عمران خان اسی دور میں پاکستان کی ایشیا میں سامراجی خوشامد کی ساکھ کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ جس دور کو وہ اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں، اس وقت باقی کا براعظم خود کو کالونیل زنجیروں سے آزاد کر رہا تھا اور قوم پرستی کو اپنی مشعل راہ بنا رہا تھا، جبکہ پاکستان ایوب خان کی حکومت میں جلدی سے واشنگٹن کیمپ کا حصہ بن گیا۔
واشنگٹن اس آمر سے بہت خوش تھا کیونکہ اسے ڈر تھا کہ منتخب حکومت پاکستان میں غیر جانبدار خارجہ پالیسی اختیار کر سکتی ہے۔ ایوب خان نے اپنی کابینہ کے پہلے اجلاس میں کہا تھا کہ "جہاں تک آپ کا تعلق ہے، اس ملک میں صرف ایک ہی سفارت خانہ ہے جو اہمیت رکھتا ہے: امریکی سفارت خانہ۔"
شاید اسی طرح خان صاحب اس بات سے بھی ناآشنا ہیں کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے سی آئی اے کو پہلی بار اپنا ہوائی اڈہ مشرف کے دور میں نہیں بلکہ ایوب خان کے دور میں دیا گیا تھا۔ مگر کوئی بات نہیں،آخر وہ خود جو ایئر پورٹ پر ان کا استقبال کرنے کے لیے جو آئے تھے۔ کتنا دلچسپ ہے نا کہ جو لوگ امریکا مخالف جذبات ظاہر کرتے ہیں اکثر وہی ان کی بھرپور جواز کاری کا بھی کام کر دیتے ہیں۔
پی ٹی آئی کی دنیا میں حقائق کچھ زیادہ معنی نہیں رکھتے، مگر سچ کہیں تو پرانے وقت کے بارے میں ایسی حسرتیں وسیع پیمانے پر پھیلی ہیں، خاص طور پر حکومت سے ناراض ان پاکستانیوں کے لیے ایوب خان کے دورے کے بارے میں فیس بک پوسٹس لگانا فرض سا ہو گیا ہے، جو اس وقت کے آرزو مند نظر آتے ہیں جب ہمیں سنجیدگی سے لیا جاتا تھا۔
عمران کا پیغام اس حلقے میں گونج رکھتا ہے، جو نہ لبرل ہے اور نہ ہی قدامت پسند، بلکہ اسے مخصوص رد عمل کی سیاست کا پیروکار کہیں تو غلط نہ ہوگا۔
تاریخ دان مارک لیلا رجعت پسندانہ سوچ کے موضوع پر مشتمل مضامین کی اپنی کتاب، دی شپ ریکڈ مائنڈ: آن پولیٹیکل ری ایکشن، میں بتاتے ہیں کہ ’اپنی بھولی بسری یادوں میں موجود شدت پسندی’ سے ہی حقیقی طور پر رجعت پسندانہ سوچ جنم لیتی ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ "رجعت پسند افراد قدامت پسند نہیں۔ وہ اپنے رویوں میں انقلابیوں جتنے ہی مشتعل ہوتے ہیں اور تاریخی تصورات پر بھی ان جیسی ہی مہارت رکھتے ہیں۔ (ایک رجعت پسند کی) کہانی کی ابتدا خوشحال، بہتر انداز میں منظم ریاست میں ہوتی ہے جہاں انہیں یہ پتہ ہوتا ہے کہ لوگ ہم آہنگی کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ پھر اجنبی خیالات اس ہم آہنگی کو چیلنج کرتے ہیں اور مرکز میں نظم و ضبط کو قائم رکھنے کی طاقت کمزور کر دیتے ہیں۔ ۔ ۔ جہاں دیگر لوگوں کے سامنے وقت پہلے کی طرح ہی گزرتا ہے لیکن اسی بہاؤ میں ایک رجعت پسند اپنے آنکھوں کے سامنے ایک جنت کے ملبے کو بہتا دیکھتا ہے۔"
مزید پڑھیے: کیا عمران خان واقعی پاکستان کے ڈونلڈ ٹرمپ ہیں؟
بطور ایک قوم کی کہانی کے کئی پاکستانیوں کے لیے یہ کافی پرکشش بیانیہ ہے اور اس کی جڑیں تہذیبی فرسودگی سے بھرے عالمگیر اسلامی احساس میں گہرائی تک پیوست ہیں جسے جنم لینے میں کئی صدیاں لگیں۔
ایک انقلابی ایک سنہری دور کا تصور کرتا ہے جسے ابھی آنا ہے جبک رجعت پسند مانتا ہے کہ سنہری دور گزر چکا ہے اور اسے لازماً واپس لوٹ آنا ہے۔ یہ ایک ایسا بیانیہ ہے جو آگے کے بجائے پیچھے کی طرف دیکھتا ہے۔ جیسے ٹرمپ اور عمران کا اہم پیغام کہ صرف وہ ہی ملک کو دوبارہ عظیم بنا سکتے ہیں، مگر ایسا کرنے سے پہلے انہیں ہمیں یہ یاد دلانا ہوگا کہ ہم کب عظیم تھے۔
شاید وہ اس کے لیے بھی کسی تصوراتی حوالے کا استعمال کریں۔
تبصرے (7) بند ہیں