پہاڑوں کے دیس میں کوہ پیماؤں کی ناقدری کیوں؟
پہاڑوں کو سر کرنے کی چاہ نے انسان کو شعور پانے سے ہی دیوانہ بنا رکھا ہے اور یہ کام دیوانہ ہی سر انجام دے سکتا ہے۔ کوہ پیمائی میرے نزدیک کھیل سے زیادہ ایک فن ہے لہٰذا کوہ پیما کو فنکار کہنے میں مجھے کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوتی۔
پہاڑ پر چڑھنے سے پہلے اس کے اسرار و رموز کو سمجھنا پڑتا ہے، پہاڑ سے باتیں کرنی پڑتی ہیں، اس کے موسموں کا اتار چڑھاؤ جھیلنا پڑتا ہے، اس کے خد و خال کو سمجھنا پڑتا ہے، سخت تپسیا کرنی پڑتی ہے تب کہیں جا کر پہاڑ انسان کے سامنے سرنگوں ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں بدقسمتی سے یہ کھیل پروان نہ چڑھ سکا، جہاں فن کی سب شاخیں مرجھائی ہوں وہاں کھیلوں کی قدریں بھی منسوخ ہو جاتی ہیں۔ سوائے کرکٹ کے یہاں کوئی کھیل پنپ نہیں سکا۔ ہمارا قومی کھیل ہاکی جس حال میں ہے اس کو دیکھتے ہوئے کوہ پیمائی کا گلہ کرنا بے سود لگتا ہے مگر پھر بھی شاید.
پاکستان میں کوہ پیمائی پنپ نہ سکنے کہ وجہ کوہ پیماؤں کی کمی نہیں بلکہ ناسازگار حالات، وسائل کی کمی، کوہ پیمائی سے متعلقہ سامان کا دستیاب نہ ہونا اس کی چند وجوہات ہیں۔ دوسرا یہ کہ عام لوگ چوں کہ اس کو براہ راست دیکھ نہیں سکتے اور اس کھیل کو خطرناک سمجھتے ہیں، اس لیے بھی کوہ پیمائی کو عوامی سطح پر پذیرائی نہ مل سکی۔
پاکستان جہاں کے ٹو اور نانگا پربت سمیت دنیا کی خطرناک اور آٹھ ہزار میٹر سے بلند پانچ چوٹیاں ہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان چوٹیوں کے ہوتے ہوئے یہاں یہ کھیل خوب پھلتا پھولتا مگر ماسوائے ہر سال اسلام آباد میں منعقد ہونے والے ماؤنٹین فلم فیسٹیول کے لوگ اس کھیل سے منسلک نہ ہو پائے۔
پڑھیے: قراقرم کے اصل ہیروز کون ہیں؟
پاکستان کی وادی شمشال، جسے کوہ پیماؤں کی وادی بھی کہا جاتا ہے، نے ایسے ایسے کوہ پیما پیدا کیے جن کا ذکر غیر ملکی کوہ پیماؤں نے اپنی کتابوں، انٹرویوز اور آرٹیکلز میں کیا، مگر وسائل کی کمی کی وجہ سے یہ لوگ آگے نہ آ سکے اور غربت سے مجبور ہو کر گھر کا خرچ چلانے کے لیے ساری زندگی بطور ہائی آلٹیچیوڈ پورٹر بسر کرنی پڑی۔
شمشال نے جو بڑے نام اس شعبے میں پیدا کیے، ان میں رجب شاہ، مہربان شاہ، عزیز اللہ، قدرت علی، سرور علی، شاہین بیگ سمیت درجن بھر قابل ذکر نام شامل ہیں۔ رجب شاہ اور مہربان شاہ کو اس شعبے میں خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔ اسی وادی سے وابستہ پاکستان کی پہلی خاتون کوہ پیما ثمینہ خیال بیگ نے دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کر رکھی ہے۔
کوہ پیما دنیا کے کسی خطے میں بستا ہو، اس کا سب سے بڑا خواب یقیناً دنیا کی سب سے بڑی چوٹی سر کرنا ہوتا ہے۔ یہی خواب اس کھیل سے منسلک ہمارے کئی مقامی ہیروز کا تھا مگر وسائل کی کمی اور ریاست کی عدم دلچسپی کے باعث رجب شاہ و مہربان شاہ جیسے کوہ پیما اس حسرت کو دل میں لیے رہ گئے۔
ایورسٹ جو اپنے خدوخال اور روٹ کی وجہ سے کے ٹو و نانگا پربت جیسی دوسری چوٹیوں کی بہ نسبت قدرے آسان ہدف ہے، اس کو اب تک صرف چار پاکستانی کوہ پیما سر کرنے میں کامیاب ہو سکے جن میں نذیر صابر، حسن سدپارہ، ثمینہ خیال بیگ، اور حال ہی میں سر کرنے والے کرنل عبد الجبار بھٹی شامل ہیں۔
ان چاروں نے اپنی انتھک محنت اور ذاتی کاوشوں کی بدولت یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے جو قابل ستائش ہے مگر ہمیں یہ بھی سوچنا ہو گا کہ اشرف امان، رجب شاہ، مہربان شاہ سمیت ہمارے درجنوں ہیرو ایورسٹ کیوں سر نہ کر سکے؟ اس کی بڑی وجہ ایورسٹ سر کرنے کی فیس ہے جو لگ بھگ گیارہ ہزار امریکی ڈالرز ہے۔
مزید پڑھیے: حسن سدپارہ، جو دنیا کی چھت پر پہنچا
رجب شاہ سن 2015 میں حسرتیں دل میں لیے وفات پا گئے۔ مجھے اب بھی حرف بہ حرف یاد ہے کہ جب لگ بھگ چار سال پہلے ہنزہ کے ایک گاؤں میں ایک عزیز دوست کے ہاں جس کا میں مہمان تھا رجب شاہ سے ملاقات ہوئی۔
بات شروع ہوئی تو میں نے اپنی علمی پیاس سے مجبور ہو کر پوچھا "رجب، آپ نے پاکستان میں موجود کے ٹو اور نانگا پربت سمیت آٹھ ہزار میٹر سے بلند سب چوٹیوں کو سر کیا ہے، کیا آپ ایورسٹ کو سر نہیں کریں گے؟"
انہوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا تھا کہ "ایورسٹ کا موقع ملے تو کیوں نہیں کروں گا میں اب بھی فٹ ہوں شاہ صاحب، مگر کیا کروں، کچھ گورے دوستوں نے جن کو میں کے ٹو اور براڈ پیک پر لے گیا تھا ، مجھے ایک بار پیشکش کی تھی کہ رجب تم ہمارے ساتھ ایورسٹ بھی چلو، تمہارا خرچے کا انتظام ہم کریں گے اور آج سے دو سال بعد ہم سب ایورسٹ پر چلیں گے، مگر شاہ صاحب ان کا جو ناظم تھا وہ اسی سال مر گیا اور میں ایورسٹ کے خواب بنتا رہ گیا۔"
میں نے پوچھا "کیا آپ نے کبھی پاکستانی حکومت یا کسی سرکاری نمائندے کو اپنے دل کی بات بتائی؟ کبھی حکومت سے مدد مانگی؟" یہ سن کر رجب شاہ ہنس پڑے اور مجھے ایسا جواب دیا جس کا ذکر میں یہاں نہیں کر سکتا۔
ان کا مفہوم تھا کہ شاید ہی گلگت بلتستان کا کوئی وزیر ہو جس سے اس نے اپنی ایورسٹ کی خواہش کا اظہار نہ کیا ہو مگر سب جھوٹے وعدے کرتے رہے۔
جس دن ان کی موت کی خبر آئی، میرے ذہن میں ان کا ہنستا ہوا چہرہ بمعہ ان کے اس جملے کے میرے ذہن میں آیا جس کا ذکر میں نہیں کر سکتا۔ ایورسٹ کی چوٹی پر جمی ساری برف میری آنکھوں سے بہہ نکلی۔
پچھلے دنوں ایورسٹ سر کرنے والی ثمینہ خیال بیگ کے بھائی علی مرزا کا اپنی فلم کی اسکریننگ کے لیے یونیورسٹی آف لاہور میں میرے ڈیپارٹمنٹ میں آنا ہوا۔ انہوں نے اپنی اور اپنی بہن کی کاوشوں کو فلمبند کر کے کوہ پیمائی پر ایک ڈاکومینٹری بنائی ہے۔
ڈاکومینٹری دیکھنے کے بعد جب میں نے ان سے سوال کیا کہ علی یہ سب چوٹیاں جو آج تک سر کیں کیا صرف اپنی ذاتی کاوشوں اور اپنے ذاتی وسائل سے کیں؟ علی نے جواب دیا جی ہاں، کچھ غیر ملکی دوستوں نے اس سلسلے میں ہماری مدد کی۔ یہ تو آپ جانتے ہوں گے کہ ریاست پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے لیے منسٹری آف ٹورازم قائم ہے مگر افسوس یہ ہوتا ہے کہ کوہ پیمائی اور کوہ پیماؤں کی مالی مدد کرنا شاید ان کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ الپائن کلب آف پاکستان ہی ایک منظم ادارہ ہے جو کوہ پیمائی کی ترغیب و تربیت کا انتظام کرتا ہے۔
پڑھیے: رجب شاہ: 'کوئی قدر نظر نہیں آتی'
ماونٹ ایورسٹ سر کرنے والوں کا ریکارڈ دیکھا جائے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ روٹ کی آسانی اور سہولیات ہونے کی وجہ سے دنیا کی بلند ترین چوٹی کو تیرہ سالہ بچے، پندرہ سالہ لڑکی سمیت اسی سالہ بوڑھے بھی سر کر چکے ہیں مگر وسائل کی کمی نے ہم سے کئی ریکارڈز چھین لیے اور کئی قابل کوہ پیما ایورسٹ کی حسرت دل میں لیے اس دنیا سے چلے گئے۔
آج جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں تو اس وقت چار دن پہلے ایورسٹ سر کرنے والے چوتھے پاکستانی کرنل ریٹائرڈ عبدالجبار بھٹی صاحب چوٹی سے اترتے ہوئے حادثے کا شکار ہو کر نیپال کے اسپتال میں زیرعلاج ہیں۔ خدا ان کو صحت کاملہ عطا فرمائے۔
یہ فنکار جو اپنی لگن اور محنت سے نامساعد حالات میں بھی کوہ پیمائی کا دیپ جلائے ہوئے ہیں یہی اس کھیل کا اصل اثاثہ ہیں۔ پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر عبدالجبار بھٹی صاحب کے لیے نیک تمناؤں کے اسٹیٹس آتے رہے اور میری ایک تحریر جس میں اس کھیل سے متعلق ہمارے معاشرتی رویے پر اور وسائل کی کمی پر طنز تھی، کو کچھ چاہنے والوں نے سراسر غلط انداز میں اس وقت پیش کیا جب عبدالجبار بھٹی صاحب اسپتال میں زیرعلاج تھے۔
سوشل میڈیا تو ایسا ہتھیار ہے جس کے کارتوس ہر ایک کی جیب میں ہیں جو چاہے بنا سمجھنے چلا دے، لیکن حقیقت میں سوشل میڈیا کے یہ کارتوس چلنے چاہیئں تو ان سرکاریوں کے خلاف جن کے ذمے اس ہنر کو ترقی دلوانا ہے۔
دنیا کے اونچے اور مشکل ترین پہاڑوں کے ہوتے ہوئے اگر پاکستان کے ہنرمند کوہ پیما غیر ملکی کوہ پیماؤں کے لیے صرف قلی بن کر رہ جائیں، تو اس سے زیادہ شرمناک بات کسی ملک، قوم اور معاشرے کے لیے اور کیا ہو سکتی ہے؟
تبصرے (2) بند ہیں