جنس تبدیلی کی سرجریوں میں 20 فیصد اضافہ
گزشتہ چند برس میں سماجی و معاشرتی دباؤ سمیت جینیاتی بیماریوں کے بڑھ جانے کے بعد عالمی سطح پر جنس تبدیل کرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا، بالخصوص امریکا میں اس میں زیادہ اضافہ دیکھا گیا۔
یہ افراد پیدائشی طور پر مخنث نہیں ہوتے، مگر ان میں پیدائش سے ہی ایسی نشانیاں، بیماریاں یا پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں، جن کی وجہ سے انہیں سرجری کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔
عالمی سطح پر جنس تبدیلی کی سرجری کے حوالے سے کوئی حتمی ڈیٹا موجود نہیں ہے، تاہم پہلی بار امریکن سوسائٹی آف پلاسٹک سرجنز (اے ایس پی ایس) کی جانب سے اس حوالے سے اعداد و شمار جاری کیے گئے ہیں۔
ان اعداد و شمار کے مطابق سال 2016 میں جنس تبدیل کروانے کے حوالے سے سرجریوں میں 20 فیصد اضافہ ہوا، جو حالیہ سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کامی سد: پاکستان کی پہلی مخنث ماڈل
مزید کہا گیا کہ امریکا بھر میں 2016 میں 10 لاکھ 78 ہزار پلاسٹک سرجریز کی گئیں، جن میں سے 3 ہزار 250 جنس کی تبدیلی کی تھیں۔
ماہرین نے بتایا کہ جنس کی تبدیلی کے لیے سرجری کرنے سے پہلے مریضوں کا مکمل طور پر ذہنی و جسمانی معائنہ کیا گیا، جس کے دوران پتہ چلا کہ مریض کئی مسائل اور پیچیدگیوں میں مبتلا ہیں۔
واضح رہے کہ امریکا وہ پہلا ملک ہے، جس نے اس حوالے سے پہلی بار اعداد و شمار جاری کیے ہیں، یہاں 2015 میں ایسی سرجریوں کی تعداد 2 ہزار 740 تھی۔
ایک اندازے کے مطابق جنس تبدیل کرنے کے حوالے سے سرجری کافی مہنگی ہے، جس پر کم سے کم 20 سے 30 ہزار ڈالرز کا خرچ آتا ہے۔
مزید پڑھیں: مخنث کے روپ میں چھپی ماں
اس قسم کی سرجریز کرانے والے کئی افراد کے مطابق وہ ہرگز ہرگز سرجری کرانا نہیں چاہتے تھے، مگر ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن ہی نہیں تھا اور وہ سرجری سے پہلے شدید نفسیاتی، جسمانی اور سماجی دباؤ کا شکار تھے۔
امریکا، برطانیہ و یورپ میں کئی نامور ٹی وی اسٹارز نے بھی ایسی سرجری کرا رکھی ہے، جب کہ وہ سرجری کے بعد بھی اپنے اپنے شعبوں کی کامیاب شخصیات ہیں۔