• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

پاناما جے آئی ٹی کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش

شائع May 22, 2017

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما فیصلے پر عمل درآمد کیس کی سماعت ہوئی جس میں عدالت عظمیٰ کی جانب سے مزید تحقیقات کے لیے قائم کی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے اب تک ہونے والی پیش رفت کی رپورٹ پیش کی۔

جے آئی ٹی کی جانب سے سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ کے سامنے 3 سربہمر لفافے پیش کیے گئے جس میں اب تک پاناما لیکس کے معاملے پر ہونے والی تحقیقات کی تفصیلات درج تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: آپ پاناما کیس کے بارے میں کتنا جانتے ہیں؟

ججز نے سربمہر لفافوں کو کھول کر رپورٹ پڑھی اور دوبارہ لفافوں کو بند کرکے ہدایت کی کہ انہیں رجسٹرار کے پاس جمع کرادیں۔

جے آئی ٹی کی رپورٹ پڑھنے کے بعد جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ’ہم اس پر غیر مطمئن نہیں ہیں اور ہمیں رپورٹ سے اختلاف نہیں ہے‘۔

اس موقع پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ’ہم شہرت کے لیے قانون نہیں بیچتے‘۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی اعلیٰ قیادت بھی اس موقع پر عدالت میں موجود تھی، پی ٹی آئی کی جانب سے فیصل چوہدری ایڈوکیٹ نے عدالت سے استدعا کی کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کو عام کیا جائے۔

تاہم جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ مناسب وقت پر رپوٹ منظر عام پر لائی جائے گی، کوئی ایسا فوجداری مقدمہ بتادیں جس میں دوران تفتیش دستاویزات فریقین کے حوالے کردی گئی ہوں‘۔

سماعت کے دوران خصوصی بینچ کے رکن جسٹس عظمت سعید شیخ نے جے آئی ٹی کو واضح طور پر کہا کہ ’اس بات کا خیال رکھیں کہ کسی صورت اضافی وقت نہیں دیا جائے گا، تحقیقات 60 روز میں لازمی مکمل کریں‘۔

جسٹس عظمت نے جے آئی ٹی ارکان سے یہ بھی کہا کہ اگر کسی ادارے سے کوئی مسئلہ ہے یا کوئی ادارہ تعاون نہیں کررہا تو بتایا جائے، عدالت اپنے حکم پر عمل درآمد کرانا جانتی ہے۔

بعد ازاں سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی گئی۔

یاد رہے کہ گذشتہ ماہ 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے تاریخی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا تھا۔

مزید پڑھیں: پاناما لیکس کیس: جے آئی ٹی کی عالمی اداروں تک رسائی نہیں

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایف آئی اے کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔

اس کے بعد 6 مئی کو سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے جے آئی ٹی میں شامل اراکین کے ناموں کا اعلان کیا تھا۔

جے آئی ٹی کا سربراہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کو مقرر کیا گیا ہے جبکہ دیگر ارکان میں ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کے بریگیڈیئر کامران خورشید، انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر نعمان سعید، قومی احتساب بیورو (نیب) کے گریڈ 20 کے افسرعرفان نعیم منگی، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز شامل ہیں۔

لارجر بینچ نے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے اس فیصلے پر عملدرآمد کروانے کے لیے خصوصی بینچ بنانے کی استدعا کی تھی، تاکہ پاناما لیکس کیس میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات بند گلی میں نہ رہ جائیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس: سپریم کورٹ کا جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ

جس کے بعد 2 مئی کو سپریم کورٹ نے پاناما کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دیا تھا جس کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل جبکہ دیگر ججز میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل ہیں۔

خصوصی بینچ پاناما کیس کے فیصلے پر عملدرآمد یعنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی تشکیل اور اس کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے بنایا گیا ہے۔


کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024