'ہندی میڈیم': آئینے میں اپنا برا عکس
برصغیر پاک و ہند سے انگریز تو چلا گیا، مگراس کی زبان انگریزی آج تک موجود ہے۔ اس معاشرے میں، یہی زبان ترقی کی ضمانت ہے۔ انڈیا ہو یا پاکستان، انگریزی زبان کا سکہ چلتا ہے۔ مشرق میں چین اور جاپان کی طرف دیکھ لیں، ایران کی مثال سامنے کی ہے۔ یورپی ممالک کی اپنی زبانوں سے جذباتی وابستگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، مگر انڈیا اور پاکستان انگریزی زبان سے پیچھا نہ چھڑاسکے۔
انڈیا میں ہندی میڈیم درحقیقت اچھوت اور پاکستان میں اردو میڈیم، دراصل گالی کے مترادف ہے۔ یہ دو زبانیں نہیں، احساسات کے دو رُخ ہیں،جن میں ذات پات کو کمتری اور برتری میں تقسیم کیا جاتا ہے، اب یہ قسمت کی بات ہے، آپ کے حصے میں کیا آتا ہے۔ یہ فلم بھرپور احتجاج ہے، مادری زبان کی طرف سے بدیسی زبان کے خلاف، ایسی آوازیں پہلے بھی بلند ہوتی رہیں، مگر غلامی کی زنجیر اتنی آسانی سے نہیں ٹوٹا کرتیں، اسی کشمکش کی عکاسی کرتی ہوئی یہ فلم’’ہندی میڈیم‘‘ہے۔
کہانی
فلم کی کہانی زینت لاکھانی نے لکھی ہے جبکہ فلم کے ہدایت کار ساکیت چوہدی نے بھی اس کی تراش خراش میں ساتھ دیا ہے۔دہلی جیسے تاریخی شہر کے پس منظر میں، جہاں ہندی اور انگریزی میڈیم طبقات کی چقپلش ہے، اس کو باریک بینی سے لکھا ہے۔
اسکرین پلے میں بھی دونوں کا تخلیقی اشتراک برقرار رہا۔ یہ موضوع پرانا ہے، مگراس کی بنت عہدِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق کی گئی ہے، اس وجہ سے کہانی میں جان ہے۔ کہانی میں اتار چڑھاؤ کی ترکیب نے کہانی کو بہت مضبوط کر دیا۔اس فلم کی کہانی کے حوالے سے یہ بھی ایک تنازعہ ہے کہ اس کو ایک بنگالی فلم کی کہانی سے متاثر ہو کر لکھا گیا ہے، مگراس ہندی فلم کی کہانی کے اپنے زاویے ہیں جس کی وجہ سے کرداروں کی بنت، مناظر کا بیان دلچسپ اور تخلیقی ہے، عام آدمی کے مسائل اور جذبات کو سامنے رکھ کر کہانی قلم بند ہوئی ہے، اس لیے عوام بھی اس کو پسند کریں گے۔
ہدایت کاری وفلم سازی
اس فلم کے ہدایت کار ساکیت چوہدری بالی ووڈ میں نووارد ہیں۔ یہ ان کی تیسری فلم ہے، مگر انہوں نے اپنی گزشتہ دو فلموں کی غلطیوں سے کافی سیکھا، اس لیے زیر نظر فلم میں انہوں نے ہدایت کاری کے تناظر میں خاصا سلیقے سے کام کیا ہے۔
کہیں غیر ضروری نمودونمائش اورعریانی کاسہارانہیں لیا،کہانی میں بھی گنجائش نہیں تھی،لیکن بعض اوقات موسیقی کے شعبے میں اس قسم کی خواہشیں پوری کرلی جاتی ہیں۔ ہدایت کار کا مرکزی کرداروں کے لیے اداکاروں کا انتخاب بہت عمدہ ثابت ہوا، اس سے ان کی دوررس صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔
فلم سازبشن کمار اور کرشن کمار نے بھی اپنے سماجی شعور کی گواہی دی، جو اس طرح کی فلم کو پروڈیوس کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایڈیٹنگ، کاسٹیوم اور دیگر تمام پہلوؤں سے فلم سازوں نے تمام چیزوں کو اپنے قابو میں رکھا، جس کی وجہ سے یہ تکنیکی اعتبار سے متوازن کاوش رہی۔
اداکاری
اس فلم میں سب سے مضبوط شعبہ یہی ہے، کہانی کی نوعیت بھی ایسی تھی، اگر مرکزی کرداروں کے ساتھ انصاف نہ کیا جاتا تو کہانی کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا۔
اس فلم کے مرکزی کردار عرفان خان، صبا قمر اور دیپک دو بریال ہیں۔ تینوں نے اپنے اپنے کرداروں سے انصاف کیا، مگراس میں عرفان اور دیپک نے چار چاند لگا دیے۔
پاکستانی اداکارہ صبا قمرکی اداکاری کو دیکھ کر اندازہ ہوا، گزشتہ کچھ برسوں میں، پاکستان سے جا کر انڈیا میں کام کرنے والی خواتین اداکاراؤں میں سب سے بہتر اداکارہ ثابت ہوئی ہیں۔ انہوں نے پورے اعتماد کے ساتھ کردار کو نبھایا اورانصاف کیا۔
عرفان خان جیسے منجھے ہوئے اداکار کے سامنے اتنی دیر ٹھہرنا مذاق کی بات نہیں اور صبا قمر نے اپنی شاندار اداکاری سے دونوں ممالک کے ناقدین کو جواب دے دیا۔ عرفان خان کی دیگر فلموں کی طرح اس فلم کا کلائمکس بھی انہی کے گرد گھومتا ہے۔ ایسے فلمی مناظر میں ان کی تھیٹر کی تربیت بہت کام آتی ہے۔ وہ لب و لہجے کے اتار چڑھاؤ سے خوب خوب کام لیتے ہیں۔ دیپک ثانوی کرداروں میں دکھائی دیتے ہیں، یہاں بھی ان کا کردار تو ثانوی تھا،مگر وہ کسی طرح بھی مرکزی کرداروں سے پیچھے نہیں رہے۔باقی کاسٹ نے بھی اپنے کردار وں کی مناسبت سے ٹھیک کام کیا۔
موسیقی
اس فلم کی کہانی میں مرکزی اورپس منظر کی موسیقی کی گنجائش ذرا کم تھی،البتہ ایک گیت ’’اک جندڑی‘‘ نے فلم کے تھیم سے خود کو جوڑ لیا، اسی لیے لطف بھی دیا۔ اس گیت کی شاعری کمار کی ہے اوراس کے موسیقار سچن ،جگرجبکہ تانیسکا اور سنگھوی نے گایا ہے۔
یہ ہرلحاظ سے ہی عمدہ گیت ہے۔ باقی گیت ایسا لگتا ہے کہ درآمد کیے ہیں، ایک گیت پنجابی ریپرز گرو رندھاوا اور ارجن کا ہے، ایک بھنگڑا سنگر سکھبیر کا ہے، ایک گیت عاطف اسلم سے گوایا گیا ہے۔ فلم کے مرکزی گیت کے علاوہ اگرکوئی دوسرا اچھا گیت ہے تووہ صرف ریپرز کا ’’سوٹ سوٹ‘‘ہے۔ عاطف اسلم اور سکھبیر کے گیت بھرتی کے محسوس ہوئے۔
نتیجہ
یہ فلم باکس آفس پر کامیابی حاصل کرے گی کیونکہ کسی کو آئینے میں اپنا عکس برا نہیں لگتا، یہ فلم انڈیا اور پاکستان جیسے معاشروں کا عکس ہے اور اس میں ان مسائل کا تذکرہ ہے، جس سے اب ہمیں نکل آنا چاہیے، اسی چاہ میں بنائی گئی یہ ایک فلم ہے، جس کے ذریعے اس نازک مسئلے کو لطیف انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو تخلیقی لحاظ سے کامیاب بھی ہے۔ کیا پاکستان میں شعیب منصور، بلال لاشاری، یاسر نواز، نبیل اور شرمین عبید چنائے، اس طرح کے حقیقی عوامی مسائل کو اپنی فلموں میں اجاگرکرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس فلم کو دیکھ کر انہیں اپنے آپ سے اس کاجواب ضرور لینا چاہیے۔