حتمی فیصلہ آنے تک پاکستان کلبھوشن کو پھانسی نہ دے، عالمی عدالت
دی ہیگ: اقوام متحدہ کی اعلیٰ عدالت انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی سی جے) نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کے خلاف ہندوستان کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ حتمی فیصلہ آنے تک کلبھوشن کو پھانسی نہیں دی جاسکتی۔
بھارتی درخواست پر فیصلہ عالمی عدالت انصاف کے جج رونی اَبراہم نے سنایا، جسے 15 مئی کو محفوظ کیا گیا تھا۔
انہوں نے پاکستان کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے حکم امتناع جاری کر دیا اور کہا کہ عالمی عدالت اس معاملے کی سماعت کا اختیار رکھتی ہے۔
فیصلہ سناتے ہوئے جج رونی ابراہم کا کہنا تھا کہ کلبھوشن کو پاکستانی آرمی ایکٹ کے تحت سزائے موت سنائی گئی جبکہ کلبھوشن یادیو کی جانب سے کوئی اپیل دائر نہیں کی گئی۔
رونی ابراہم کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں 28 دسمبر 1977 سے ویانا کنونشن کے رکن ہیں اور کوئی بھی اس سے انکار نہیں کرتا۔
جج رونی ابراہم نے کہا کہ آرٹیکل 1 کے تحت عدالت کے پاس ویانا کنونشن کی تشریح میں تفریق پر فیصلہ دینے اور اس کیس کو سننے کا اختیار ہے۔
فیصلہ سناتے ہوئے جج رونی ابراہم نے بھارت کی درخواست منظور کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی دینی چاہیئے۔
ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے تک کلبھوشن کو پھانسی نہیں دی جاسکتی۔
دفتر خارجہ کا ردعمل
عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر دفتر خارجہ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ 'پاکستان عالمی عدالت انصاف کے دائرہ کار کے حوالے سے اعلامیہ جمع کراچکا ہے اور ڈیکلریشن کے تحت قومی سلامتی معاملات پر عالمی عدالت انصاف کا دائرہ کار تسلیم نہیں کرتے'۔
ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا کا کہنا تھا کہ 'ہمارے قانونی ماہرین نے عالمی عدالت انصاف میں بھی یہی موقف اپنایا تھا'.
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ماضی میں بھی عالمی عدالت انصاف نے تین مرتبہ اس قسم کا فیصلہ دیا اور تینوں فیصلے امریکا کے خلاف دیئے گئے تھے'۔
نفیس زکریا نے کہا کہ 'ہم نے بھارت سے کلبھوشن یادیو کے ساتھیوں اور ہیڈلرز تک رسائی مانگی ہے لیکن بھارت نے پاکستان کو کوئی بھی مثبت جواب نہیں دیا'۔
ترجمان دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 2008 کا قونصلر رسائی معاہدہ موجود ہے اور اس معاہدے کے آرٹیکل 6 کے تحت کلبھوشن جیسے مقدمات میں رسائی دینے کا فیصلہ میرٹ آف دی کیس پر ہوتا ہے۔
قانونی ٹیم نہ بھیجتے تو یکطرفہ فیصلہ ہوتا، سرتاج عزیز
ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا کہ اگر اپنی قانونی ٹیم عالمی عدالت نہ بھیجتے تو یکطرفہ فیصلہ ہوسکتا تھا۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ کلبھوشن کے فیصلے کے دو پہلو ہیں، اگر کیس کے دفاع کیلئے عالمی عدالت نہ جاتے تو مناسب فیصلہ نہ ہوپاتا۔
انھوں نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے بعد وکیلوں کی نئی ٹیم بنائیں گے اور کیس کی بھرپور تیاری کی جائے گی۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان کا رد عمل
عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر اٹارنی جنرل آف پاکستان کے آفس کے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ عدالت کے فیصلے سے کلبھوشن کے مقدمے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پاکستان عدالتی احترام میں عالمی عدالت میں پیش ہوا، جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ عدالتی دائرہ کار پر اعتراض عدالت میں پیش ہوکر ہی کیا جاسکتا تھا۔
انھوں نے کہا کہ بھارت کلبھوشن کی امن مخالف سرگرمیاں نہیں چھپا سکتا جبکہ آئی سی جے کے فیصلے سے کلبھوشن کیس پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
بیان میں کہا گیا کہ کلبھوشن یادیو کے پاس ابھی بھی اپیل کا موقع ہے۔
انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ 'ہم اس مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے پُرعزم ہے'۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان کا اپنے اعلامیے میں کہنا تھا کہ پاکستان نے عالمی عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ کلبھوشن کو تمام قانونی مواقع فراہم کیے جائیں گے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ تمام مسائل پُرامن طریقے سے ہی حل کیے جاسکتے ہیں۔
بھارت کی عالمی عدالت انصاف تک رسائی
یاد رہے کہ بھارت نے رواں ماہ 10 مئی کو جاسوس کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کے خلاف عالمی عدالت انصاف سے رابطہ کرکے پاکستان پر ویانا کنوینشن کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا تھا۔
15 مئی کو درخواست پر پہلی سماعت کے دوران بھارت نے عالمی عدالت انصاف سے اپیل کی تھی کہ پاکستان کو کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کو معطل کرنے کی ہدایات جاری کی جائیں کیونکہ اس فیصلے سے کلبھوشن کے بنیادی حقوق مجروح ہوئے ہیں۔
اپنے دلائل کے دوران بھارتی وکلاء کی ٹیم کے سربراہ ہریش سالوے نے توجہ پاکستان کے کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی کے انکار پر ہی مرکوز رکھی تھی۔
مزید پڑھیں: کلبھوشن یادیو کون ہے؟
سالوے کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال انتہائی سنگین اور ہنگامی ہے، بھارت پاکستان کو مارچ 2016 سے اب تک متعدد مرتبہ کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی دینے کی درخواست دے چکا ہے۔
پاکستانی وکلا کی ٹیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ کلبھوشن کا کیس عالمی عدالت انصاف کے دائرہ کار میں نہیں آتا اس لیے یہاں کیس نہیں چلایا جاسکتا۔
عالمی عدالت انصاف میں پاکستان کی نمائندگی ڈائریکٹر جنرل (جنوبی ایشیا اور سارک) ڈاکٹر محمد فیصل کر رہے تھے، جن کے ساتھ پاکستانی وکلاء کی ٹیم موجود تھی۔
ڈاکٹر فیصل نے عدالت کو بتایا تھا کہ ویانا کنونشن کے مطابق یہ مقدمہ عالمی عدالت انصاف کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارتی جاسوس کو تمام متعلقہ قانونی کارروائی مکمل کیے جانے کے بعد سزائے موت سنائی گئی اور اسے خود پر لگائے گئے الزامات کے دفاع کے لیے وکیل بھی فراہم کیا گیا تھا۔
عالمی عدالت انصاف نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی تھی۔
خیال رہے کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو پاکستان میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے گذشتہ ماہ موت کی سزا سنائی تھی۔
کلبھوشن کی گرفتاری اور ٹرائل
3 مارچ 2016 کو حساس اداروں نے بلوچستان کے علاقے ماشکیل سے بھارتی جاسوس اور نیوی کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا تھا۔
'را' ایجنٹ کی گرفتاری کے چند روز بعد اس کی ویڈیو بھی سامنے لائی گئی تھی، جس میں کلبھوشن یادیو نے اعتراف کیا تھا کہ اسے 2013 میں خفیہ ایجنسی 'را' میں شامل کیا گیا اور وہ اس وقت بھی ہندوستانی نیوی کا حاضر سروس افسر ہے۔
کلبوشھن نے یہ بھی کہا تھا کہ 2004 اور 2005 میں اس نے کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد 'را' کے لیے کچھ بنیادی ٹاسک سرانجام دینا تھا جب کہ 2016 میں وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔
ویڈیو میں کلبوشھن نے اعتراف کیا تھا کہ پاکستان میں داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنا تھا۔
گذشتہ ماہ 10 اپریل کو پاکستان کی جاسوسی اور کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنادی گئی تھی۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کو یہ سزا پاکستان میں جاسوسی اور تخریب کاری کی کارروائیوں پر سنائی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: کلبھوشن تک قونصلر رسائی: 'جاسوسی کو ہوا دینے کے مترادف'
کلبھوشن یادیو کا ٹرائل فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے سیکشن 59 اور سرکاری سیکرٹ ایکٹ 1923 کے سیکشن 3 کے تحت کیا تھا، جس کی توثیق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کردی تھی۔
سزا کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد اپنے فوری ردعمل میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کا کہنا تھا کہ اگر کلبھوشن یادیو کی سزائے موت پر عملدرآمد ہوا تو یہ ’پہلے سے سوچا سمجھا قتل‘ تصور کیا جائے گا۔
دوسری جانب پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے سشما سوراج کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ کلبھوشن نے پاکستان میں تخریب کاری کرنے کااعتراف کیا ہے۔
سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا،'کلبھوشن نے بھارتی حکومت کی ایما پر پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کا اعتراف کیا'۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی دفتر خارجہ نے پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کو طلب کرکے کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنائے جانے کو 'مضحکہ خیز' قرار دیتے ہوئے انہیں احتجاجی مراسلہ بھی دیا تھا۔
مزید پڑھیں: بھارتی صحافی نے کلبھوشن یادیو سے متعلق اہم سوالات اٹھادیئے
واضح رہے کہ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط بھارت کے ان دعوؤں کو مسترد کرچکے ہیں، جن میں کہا گیا تھا کہ پاکستان نے ہندوستانی جاسوس کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی نہ دے کر دو طرفہ معاہدے کی خلاف ورزی کی۔
عبدالباسط نے ایک انٹرویو کے دوران دو ٹوک انداز میں واضح کیا تھا کہ 'ہمارے درمیان دوطرفہ معاہدہ موجود ہے جس میں یہ واضح تحریر ہے کہ سیاسی اور سیکیورٹی سے متعلق معاملات پر فیصلہ میرٹ پر ہوگا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اس لیے اب تک ہم نے ریاست کے قانون اور بھارت سے ہونے والے دو طرفہ معاہدے کے مطابق سخت فیصلہ کیا ہے، ہم نے کسی چیز کی خلاف ورزی نہیں کی، جبکہ ہم اپنے قانون اور ساتھ دو طرفہ معاہدے اور عزم کے مطابق کارروائی کررہے ہیں'۔