• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

'حکومت نے اے پی ایس شہداء سے کیا وعدہ توڑ دیا'

شائع May 18, 2017

اسلام آباد: قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) سانحے کے تحقیقات کے لیے جوڈیشل انکوائری کے وعدے پر عملدرآمد نہ ہونے پر حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔

سابق صدر آصف زرداری کے ہمراہ 16 دسمبر 2014 کو شہید ہونے والے طالب علموں کے والدین سے ملاقات کے بعد خورشید شاہ کا کہنا تھا 'میں ایوان کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے میں 140 سے زائد بچوں نے اپنی زندگی گنوائی تھی'۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ بتا نہیں سکتے کہ بچوں کے والدین کس قدر جذباتی تھے جبکہ اس سانحے کے بعد پوری قوم، حکومت اور اپوزیشن نے متحد ہو کر وعدہ کیا تھا کہ معصوم بچوں کا خون رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔

خورشید شاہ کے مطابق 'غم میں ڈوبے والدین کے زخم اب تک بھر نہیں سکے، ان سے کیے گئے وعدے کو پورا کرنا ابھی باقی ہے، واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن یہ مایوس کن بات ہے اس پر عملدرآمد ہونا باقی ہے'۔

خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ دیگر معاملات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن قائم کردیئے جاتے ہیں تاہم ایک ایسا واقعہ جس نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اس کی چھان بین ہونا اب بھی باقی ہے۔

انہوں نے سوال کیا 'واقعے کی جوڈیشل انکوائری کرانے میں کیا رکاوٹ حائل ہے؟ میں بحیثیت اپوزیشن لیڈر مطالبہ کرتا ہوں کہ معاملے کی انکوائری کی جائے اور معصوم جانوں کے نقصان کی وجوہات جان کر اس بات کا تعین کیا جائے کہ اس حملے کا فائدہ کس نے اٹھایا'۔

خورشید شاہ کا طنزیہ انداز میں کہنا تھا کہ لاہور کے چڑیاگھر میں مرنے والے ہاتھی کی انکوائری کا حکم تو دے دیا جاتا ہے لیکن 140 بچوں کے قتل کی تحقیقات کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں۔

اجلاس کے دوران کراچی کے مسائل پر بھی بات کی گئی۔

وقفہ سوالات کے دوران قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین قیصر شیخ نے بندرگاہ پر موجود ہزاروں کنٹینرز کی موجودگی کا معاملہ بھی اٹھایا۔

جس کے جواب میں پارلیمانی سیکریٹری برائے خرانہ رانا محمد افضل خان نے ایوان کو بتایا کہ یہ معاملہ سندھ ہائی کورٹ کے حکم کی غلط تشریح کی وجہ سے سامنے آیا، انہوں نے اسے صوبائی حکومت کی 'ناکامی' قرار دیا۔

تاہم پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے پورٹس اینڈ شپنگ سید غلام مصطفیٰ شاہ کا کہنا تھا کہ بنیادی مسئلہ ہیوی ٹریفک کا رہائشی علاقوں سے گزرنا ہے، اس مسئلے کے حل کے لیے مال بردار گاڑیوں کو رہائشی علاقوں سے رات 11 بجے کے بعد گزرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے کے الیکٹرک کی مایوس کن کارکردگی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔


یہ خبر 18 مئی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024