عالمی عدالت کلبھوشن کیس کی سماعت نہیں کرسکتی، پاکستان
دی ہیگ: عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو پاکستان کی جانب سے سزائے موت سنائے جانے کے حوالے سے کیس کی سماعت ہوئی۔
خیال رہے کہ پانچ روز قبل آئی سی جے کی جانب سے جاری کردی ایک پریس ریلیز میں بتایا گیا تھا کہ کلبھوشن یادیو کے کیس کی سماعت 15 مئی کو ہوگی۔
کیس کی سماعت کے پہلے مرحلے میں عالمی عدالت میں بھارت کے دلائل پیش کئے جبکہ پاکستانی ٹیم نے دوسرے مرحلے میں اپنے دلائل پیش کیے۔
عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کی سزا کے خلاف کیس کی سماعت کے موقع پر پاکستانی وفد میں سفیر معظم احمد خان، ڈاکٹر محمد فیصل اور سید فراز حسین موجود تھے۔
ان کے علاوہ پاکستان کی جانب سے خاور قریشی نے عدالت میں دلائل دیئے جبکہ قانونی ٹیم میں اسد رحیم خان اور جوزیف ڈیکے بھی شامل تھے۔
کیس کی سماعت عالمی عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں
ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق عالمی عدالت انصاف میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی سزا کے خلاف دائر بھارتی درخواست پر پاکستانی وکلا کی ٹیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کلبھوشن کا کیس عالمی عدالت انصاف کے دائرہ کار میں نہیں آتا اس لیے یہاں کیس نہیں چلایا جاسکتا۔
عالمی عدالت انصاف میں پاکستان کی نمائندگی ڈائریکٹر جنرل (جنوبی ایشیا اور سارک) ڈاکٹر محمد فیصل کررہے تھے، جن کے ساتھ پاکستانی وکلاء کی ٹیم موجود تھی۔
ڈاکٹر فیصل نے عدالت کو بتایا کہ ویانا کنوینشن کے مطابق یہ مقدمہ عالمی عدالت انصاف کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارتی جاسوس کو تمام متعلقہ قانونی کارروائی مکمل کیے جانے کے بعد سزائے موت سنائی گئی ہے اور اسے خود پر موجود الزامات کے دفاع کیلئے وکیل بھی فراہم کیا گیا تھا۔
اس موقع پر محمد فیصل نے عدالت میں کلبھوشن یادیو کے پاسپورٹ کی تصویر بھی پیش کی اور بتایا کہ یہ پاسپورٹ بھارتی جاسوس سے برآمد کیا گیا ہے جس میں اس کا مسلم نام درج ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'بھارت مذکورہ پاسپورٹ کی وضاحت پیش کرنے سے قاصر ہے یا اس حوالے سے تفصیلات فراہم کرنا نہیں چاہتی، جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ گرفتار جاسوس غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تھا'۔
جاسوس پر ویانا کنوینشن لاگو نہیں
پاکستان کی نمائندگی کرنے والے خاور قریشی کا کہنا تھا کہ عالمی عدالت کرمنل کورٹ نہیں ہے اور قومی سلامتی سے متعلق ایسے مقدمات کی سماعت نہیں کرسکتی۔
انھوں نے عدالت سے بھارتی درخواست کو خارج کرنے پر زور دیا اور کہا کہ 'یہ ہنگامی معاملہ نہیں ہے'۔
خاور قریشی کا کہنا تھا کہ ویانا کنوینشن 'جاسوسی اور دہشت گردی میں ملوث' افراد پر لاگو نہیں ہوتا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'بھارت کے الزامات کے ان کے جاسوس کو اغوا کیا گیا ہے درست نہیں ہیں اور پاکستان نے کلبھوشن یادیو کو بلوچستان کے علاقے سے گرفتار کیا ہے'۔
کلبھوشن یادیو کے معاملے پر عالمی عدالت انصاف نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا اور کیس کی سماعت ملتوی کردی۔
عالمی عدالت انصاف کے جج نے کہا کہ فیصلہ جلد سنایا جائے گا۔
اس سے قبل سماعت کے آغاز میں بھارت نے اقوام متحدہ کی عالمی عدالت انصاف سے اپیل کی ہے کہ پاکستان کو کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کو معطل کرنے کی ہدایات جاری کی جائیں کیونکہ اس فیصلے سے کلبھوشن کے بنیادی حقوق مجروح ہوئے ہیں۔
اپنے دلائل کے دوران بھارتی وکلاء کی ٹیم کے سربراہ ہریش سالوے نے توجہ پاکستان کے کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی کے انکار پر ہی مرکوز رکھی۔
سالوے کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال انتہائی سنگین اور ہنگامی ہے، بھارت پاکستان کو مارچ 2016 سے اب تک متعدد مرتبہ کلبھوشن یادیو تک کونسلر رسائی دینے کی درخواست دے چکا ہے۔
مقدمے کی سماعت میں پاکستان کی قانونی ٹیم کی سربراہی اٹارنی جنرل پاکستان اشتر اوصاف کررہے ہیں جبکہ بھارتی وکلاء کی ٹیم ہریش سالوے کی سربراہی میں کلبھوشن یادیو کیس کی پیروی کررہی ہے۔
یاد رہے کہ رواں ہفتے بھارت نے آئی سی جے کو خط لکھ کر کلبھوشن یادیو کی سزا کے معاملے پر پاکستان پر ویانا کنوینشن کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا تھا۔
بھارت نے 10 مئی کو جاسوس کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کے خلاف عالمی عدالت انصاف سے رابطہ کیا تھا۔
بھارت کے رابطہ کرنے کے بعد آئی سی جے کی جانب سے پریس ریلیز جاری کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ 'بھارت کا دعویٰ ہے کہ انڈین نیوی کے ریٹائرڈ افسر کلبھوشن یادیو کو پاکستان نے ایران سے اغوا کیا اور بعد ازاں یہ ظاہر کیا گیا کہ اسے 3 مارچ 2016 کو بلوچستان سے گرفتار کیا گیا'۔
بھارت نے آئی سی جے میں دائر کی جانے والی درخواست میں کہا تھا کہ متعدد درخواستوں کے باوجود پاکستانی انتظامیہ بھارت کو کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی فراہم نہیں کررہی جو کہ ویانا کنوینشن کی خلاف ورزی ہے۔
بھارتی جاسوس کی سزائے موت پر عمل درآمد فوری رکوانے کا مطالبہ کرتے ہوئے بھارت کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان سزائے موت کے فیصلے کو منسوخ نہیں کرتا تو عالمی عدالت انصاف پاکستان کی جانب سے بین الاقوامی قوانین اور ویانا کنوینشن کے خلاف دیئے گئے اس فیصلے کو غیرقانونی قرار دے اور سزایافتہ بھارتی شہری کی رہائی کے احکامات جاری کرے۔
خیال رہے کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو پاکستان میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے گذشتہ ماہ موت کی سزا سنائی تھی۔
کلبھوشن کی گرفتاری اور ٹرائل
3 مارچ 2016 کو حساس اداروں نے بلوچستان کے علاقے ماشکیل سے بھارتی جاسوس اور نیوی کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا تھا۔
'را' ایجنٹ کی گرفتاری کے چند روز بعد اس کی ویڈیو بھی سامنے لائی گئی تھی، جس میں کلبھوشن یادیو نے اعتراف کیا تھا کہ اسے 2013 میں خفیہ ایجنسی 'را' میں شامل کیا گیا اور وہ اس وقت بھی ہندوستانی نیوی کا حاضر سروس افسر ہے۔
مزید پڑھیں: کلبھوشن یادیو کون ہے؟
کلبوشھن نے یہ بھی کہا تھا کہ 2004 اور 2005 میں اس نے کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد 'را' کے لیے کچھ بنیادی ٹاسک سرانجام دینا تھا جب کہ 2016 میں وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔
ویڈیو میں کلبوشھن نے اعتراف کیا تھا کہ پاکستان میں داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنا تھا۔
گذشتہ ماہ 10 اپریل کو پاکستان کی جاسوسی اور کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنادی گئی تھی۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کو یہ سزا پاکستان میں جاسوسی اور تخریب کاری کی کارروائیوں پر سنائی گئی تھی۔
کلبھوشن یادیو کا ٹرائل فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے سیکشن 59 اور سرکاری سیکرٹ ایکٹ 1923 کے سیکشن 3 کے تحت کیا تھا، جس کی توثیق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کردی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ’کلبھوشن پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے میں ملوث‘
سزا کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد اپنے فوری ردعمل میں بھارت کا کہنا تھا کہ اگر کلبھوشن یادیو کی سزائے موت پر عملدرآمد ہوا تو یہ ’پہلے سے سوچا سمجھا قتل‘ تصور کیا جائے گا۔
دوسری جانب پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے سشما سوراج کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ کلبھوشن نے پاکستان میں تخریب کاری کرنے کااعتراف کیا ہے۔
سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا،'کلبھوشن نے بھارتی حکومت کی ایما پر پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کا اعتراف کیا'۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی دفتر خارجہ نے پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کو طلب کرکے کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنائے جانے کو 'مضحکہ خیز' قرار دیتے ہوئے انہیں احتجاجی مراسلہ بھی دیا تھا۔
واضح رہے کہ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط بھارت کے ان دعوؤں کو مسترد کرچکے ہیں، جن میں کہا گیا تھا کہ پاکستان نے ہندوستانی جاسوس کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی نہ دے کر دو طرفہ معاہدے کی خلاف ورزی کی۔
عبدالباسط نے ایک انٹرویو کے دوران دو ٹوک انداز میں واضح کیا تھا کہ 'ہمارے درمیان دوطرفہ معاہدہ موجود ہے جس میں یہ واضح تحریر ہے کہ سیاسی اور سیکیورٹی سے متعلق معاملات پر فیصلہ میرٹ پر ہوگا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اس لیے اب تک ہم نے ریاست کے قانون اور بھارت سے ہونے والے دو طرفہ معاہدے کے مطابق سخت فیصلہ کیا ہے، ہم نے کسی چیز کی خلاف ورزی نہیں کی، جبکہ ہم اپنے قانون اور ساتھ دو طرفہ معاہدے اور عزم کے مطابق کارروائی کررہے ہیں'۔