تمام تر دشواریوں کے باوجود افغانستان کا یادگار سفر
ہماری ملاقات اسلام آباد ایئرپورٹ کے آمد ہال میں سامان کے بیلٹ کے پاس ہوئی۔ نہیں، ہم کسی پرواز سے آنے والے مسافر نہیں تھے بلکہ ہم تو روانگی والے مسافر تھے جن کی پرواز آخری منٹ پر منسوخ کر دی گئی تھی۔ وجہ ہمیں خراب موسم بتائی گئی تھی مگر ماحول تو کچھ اور ہی پیغام دے رہا تھا۔
دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات اس سے پہلے اس قدر کشیدہ نہیں ہوئے تھے۔ زمینی سرحدیں ہفتوں طویل بندش کے بعد ابھی ہی دوبارہ کھولی گئی تھیں۔ ایسا محسوس ہوا کہ خراب موسم سے کہیں زیادہ خراب حالات درجنوں مسافروں کی دشواری کا سبب بنتے ہیں۔
ہمارے پاسپورٹس پر ایگزٹ اسٹیمپس کو خارج کروانے اور پی آئی اے دفتر کی طرف سے پرواز کی منسوخی کے لیے دستاویزات لینے کے بعد ہمیں بیلٹ سے اپنا سامان اٹھانے کی ہدایت کی گئی۔
اس وقت ایک ساتھی مسافر نے مجھ سے پوچھا کہ میں افغانستان کس سلسلے میں جارہا ہوں۔ کیا کسی کاروبار کے سلسلے میں؟ میں نے جواب دیا نہیں، میں تو وہاں سیر کی غرض سے جا رہا ہوں۔
انہوں نے حیرانگی کے ساتھ مجھے وہاں ہرگز نہ جانے کا مشورہ دیا۔ جب میں نے ان سے کہا کہ آپ بھی تو وہیں جا رہے تھے، تو انہوں نے بتایا کہ وہ وہاں پاکستانی سفارت خانے کے ایک سینئر افسر ہیں۔
انہوں بتایا کہ انہیں وہاں پھنسے اور اغوا شدہ پاکستانیوں کی مدد کرنے کے لیے بلایا گیا تھا۔ افسوس کہ یہ ان کی ملازمت کا حصہ تھا۔
ایک پاکستانی سفارتکار کی جانب سے سختی کے ساتھ خبردار کیے جانے اور اس کے ساتھ افغانستان میں سفری خطرات کے بارے میں آگاہی کی وجہ سے میں بھاری دل کے ساتھ وہاں نہ جانے کا فیصلہ تقریباً کر چکا تھا۔
یہ میری اس ملک میں جانے کی دوسری ناکام کوشش ہوگی، جو اسلام آباد، جہاں میں کئی سالوں سے رہائش پذیر ہوں اور کام کرتا ہوں، سے محض 300 کلومیٹرز دور ہے۔ کوئی ایسا شخص جو سیر و سیاحت کو بے انتہا پسند کرتا ہے، اس شخص کی سفری تاریخ میں ایسی کمی کس طرح قابل قبول ہوگی؟ بلکہ باعث شرمندگی ہوگی۔
میں نے پہلی بار افغانستان 1978 کے سرخ انقلاب کے تھوڑے عرصے بعد 1979 میں طورخم بارڈر سے دیکھا تھا۔ ملک میں لاک ڈاؤن جاری تھا اور وہاں جانے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
چند سالوں بعد میں نے ایک بار پھر افغانستان جانے کی کوشش کی۔ اس وقت میں ایران میں تھا اور روس، بالٹک، مشرقی یورپ اور بالکن کے طویل زمینی سفر کے اختتام سے پہلے اپنا اگلا اسٹاپ افغانستان کو منتخب کیا تھا۔
میں نے استنبول میں واقع افغان قونصل خانے میں ویزا کی درخواست دی۔ انٹرویو کرنے والے سفارت کار نے وہاں موجود اندرونی خطرات کی وجہ سے میرے وہاں جانے کی سختی سے مخالفت کی۔ میرے بے حد اصرار پر انہوں نے مجھے ویزا جاری کر دیا۔
لیکن قسمت کو کچھ اور منظور تھا، میں تہران میں بیمار ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے اپنا سفر محدود کرنے پر مجبور ہو گیا۔ مشن اس بار بھی نہ چاہتے ہوئے ادھورا رہ گیا۔
اب جب کابل جانے کے لیے تیار پرواز میں سوار ہونے والا تھا کہ پرواز ہی منسوخ کر دی گئی۔ لگتا ہے میرے اور کابل کی قسمت کے ستارے ہمیں ملنے ہی نہیں دیتے۔ میں جانے یا نہ جانے کی کشمکش میں الجھا تھا۔
تمام تر وارننگ پر دھیان دیے بغیر میں نے وہاں جانے کا فیصلہ کیا۔ اس لیے اگلے دن بنا کوئی پرواہ کیے بغیر ہاتھوں میں کم ایئر کا ٹکٹ تھامے افغانستان کی طرف نکل پڑا۔
جب نصف خالی پرواز کابل ایئر پورٹ پر اتری تب رات ہو چکی تھی۔ گاڑیوں کے لیے بند خالی پارکنگز سے گزرتے ہوئے میں اپنے ڈرائیور محمد نبی کو دیکھا، جو شرمیلے انداز میں مسکرا رہا تھا۔ وہ تیز قدموں کے ساتھ اپنی پرائیوٹ ٹیکسی تک لے گیا اور مجھے میرے ہوٹل تک پہنچایا۔
ہوٹل کی پہچان کے لیے کسی قسم کا سائن بورڈ آویزاں ہی نہیں تھا۔ دیکھنے میں یہ کسی ہائی سیکیورٹی جیل سے کم نہ تھا۔ لوہے کے تین دروازوں سے گزرنے کے بعد بالآخر میں اپنے کمرے تک پہنچا۔
یہ ایک درمیانے درجے کا ہوٹل تھا جس میں میرے قیام کا بندوبست ایک پاکستانی پشتون نے کیا تھا جو 10 دنوں کی ایک ورکشاپ میں شریک ہونے کے لیے اسی ہوٹل میں قیام پذیر تھا۔ اس نے میرا تعارف ایک افغان پشتون سے کروایا جنہوں نے میرے کمرے اور سفر کا بندوبست کیا تھا۔
میں نے پہلی بار کوئی ہوٹل دیکھا جس میں کمرے کے کرائے میں ناشتے کے علاوہ رات کا کھانا بھی شامل تھا۔ اس کی وجہ بھی تھی۔ مجھے کسی افغان شخص کے بغیر باہر سیر و تفریح کے لیے نکلنے سے سختی سے منع کیا گیا، اور خاص طور پر رات کے وقت تو بالکل بھی نہیں۔ میرے پاس اور کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔
پہلے دو دن تو میں محمد نبی کی ٹیکسی میں کابل میں ادھر ادھر گھومتا رہا۔ بہتر نظاروں کے لیے میں نے اگلی سیٹ پر بیٹھنا مناسب سمجھا، حالانکہ گاڑی کی ونڈ شیلڈ آدھی ٹوٹی ہوئی تھی اور خود کو محفوظ رکھنے کے لیے کوئی سیٹ بیلٹ بھی نہیں تھا۔
میں جس ایک اہم تاریخی مقام کو دیکھنا چاہتا تھا وہ تھا کابل کی شناخت، دارالامان، جسے بنانے کا منصوبہ اور اس کی آدھی تعمیر 1920 کی دہائی میں بادشاہ امان اللہ خان نے کی تھی۔
اس کے ٹوٹے ہوئے مرکزی حصے کی تصاویر اور مناظر کو کابل میں روسیوں کے جانے کے بعد مسلح جنگجوؤں کی آپسی لڑائی کے نتیجے میں ہونے والا نقصان دکھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔میری بدقسمتی تھی کہ، وہ حصہ کپڑے سے ڈھکا ہوا تھا۔ ممکن ہے کہ اس حصے کی بحالی کا کام جاری ہو۔
بلند و بالا چار دیواری کی وجہ سے بھارت کی جانب سے تحفے میں دی جانے والی 9 کروڑ امریکی ڈالرز مالیت کی پارلیمنٹ کی نئی عمارت نظر ہی نہیں آ رہی تھی اور نہ ہی اس کا گنبد نظر آ رہا تھا۔ 2015 میں طالبان نے اس عمارت پر حملہ بھی کیا تھا۔
مایوسیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا کیونکہ شہر کا مرکزی حصے، جہاں صدارتی محل، وزارت دفاع اور تاریخی پرانی بازار واقع ہیں، کے تمام راستے بند کیے ہوئے تھے اور کوئی بھی عمارت دیکھی نہیں جا سکتی تھی۔
ہر صبح، میں اپنے کمرے کی کھڑکی سے دیکھتا تو مجھے آسمان میں ہیلی کاپٹرز اڑتے نظر آتے جو بظاہر کسی جنگی مشن پر تھے۔ کابل کے آسمان میں بڑا جاسوسی غبارہ بھی چھوڑا گیا تھا۔، جو کسی بھی ابھرتے خطرے کی تصاویر کھینچ کر بھیج رہا تھا۔
خطرے کے باوجود بھی میں شہر سے 30 کلومیٹر دور واقع پغمان گیا اور کابل میں واقع باغ بابر کا رخ کیا۔ پغمان خوبصورت نظاروں سے بھرپور جگہ ہے جہاں پہاڑ اور زمین کا ملن ہوتا ہے اور ارد گرد پگھلتی برف کا پانی اپنی شدت کے ساتھ بہتا رہتا ہے، اور یہ کابل کے باسیوں کے لیے ایک بہترین پکنک اسپاٹ ہے۔
یہاں پیرس کی مشہور یادگار آرک دی ٹراؤمف (محرابِ فتح) کی نقل بھی ہے جسے منی آرک دی ٹراؤمف کہا جاتا ہے، اسے بنانے کا خیال 28-1927 میں بادشاہ امان اللہ خان کو اپنے دورہ یورپ کے بعد آیا۔
امان اللہ مغرب سے کافی متاثر تھے، ان کے چند نڈر اقدمات نے قدامت پسند افراد کو ان کے مخالف بنا دیا جس وجہ سے انہیں 1929 میں جبری طور پر حکومت سے دستبردار ہونا پڑا۔ پغمان اب افغانستان کے امیر اور مشہور طبقے کے افراد کی رہنے کی جگہ ہے۔
باغ بابر بنانے کا خیال اصل میں ہندوستان کے پہلے مغل شہنشاہ کو آیا تھا جو افغانستان سے محبت اور ہر ہندوستانی چیز کو کمتر سمجھنے والے کے طور پر جانے جاتے تھے۔ 1504 میں خود انہوں نے ہی پڑوس میں واقع ازبکستان کی وادئ فرغانہ سے آ کر کابل پر قبضہ کیا تھا۔ آج وہ اپنے ہی پسندیدہ شہر میں مدفون ہیں۔
باغ کافی خوبصورت ہے، ہفتہ وار چھٹی کے دن میں وہاں موجود تھا تو دیکھا کہ کئی افراد پارک پر بیٹھ کر کھا پی رہے تھے اور کچھ مٹر گشتی کرتے ہوئے چھٹی کیش کر رہے تھے۔ نوجوان لڑکے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چہل قدمی کر رہے تھے، جو کہ دوستی کے رشتے کو ظاہر کرنے کا ایک طریقہ ہے اور اس علاقے میں یہ کوئی بڑی بات نہیں۔
محمد نبی نے مجھے گیٹ پر چھوڑا جس کے بعد میں بھی باقی ہجوم کے ساتھ داخلی حصے کی طرف بڑھ گیا۔ ایک سیکیورٹی والے نے مجھے روک لیا، جو وہاں اینٹری ٹکٹس چیک کرنے کے لیے کھڑا تھا، میں کھسر پھسر کرنے لگا۔ جس پر اس نے زور سے اعلان کیا کہ میں ایک خارجی (غیر ملکی) ہوں اور مجھے ٹکٹ خریدنے اور دوسرے دروازے سے داخل ہونے کے لیے کہا۔
ظاہر ہے، خارجیوں کا ٹکٹ مقامی باشندوں کے ٹکٹ سے بہت زیادہ مہنگا تھا۔ وہاں مقامی دکھنے کے لیے میری شکل و صورت اور شلوار قمیض نے تو ساتھ دیا مگر زبان نے دھوکہ کر دیا۔
پارک میں کافی اچھا وقت گزرا، وہاں چہل قدمی کی، تصاویر کھینچی اور وہاں موجود دیگر افراد سے میری تصاویر کھینچنے کی گزارش بھی کیں۔ جب پارک سے باہر نکلا تو میرا ڈرائیور مجھے کہیں دکھائی نہیں دیا؛ بظاہر تو یوں لگ رہا تھا کہ جہاں اس نے گاڑی پارک کی تھی پولیس نے وہاں سے جانے کے لیے کہہ دیا ہوگا۔ آدھے گھنٹے کی پریشان حال تلاش کے بعد بالآخر وہ مجھے دکھ گیا۔
میرے پارک گھومنے کے تجربے میں بس یہی ایک چیز ناخوشگوار بات تھی۔ اور اسی دن پر اسی پارک میں میرے پاکستانی شناسا کے ساتھ ہونے والی ناخوشگواری سے تھوڑی کم بھی تھی۔ وہ اپنے دو پاکستانی ساتھیوں اور ایک افغان محافظ کے ساتھ وہاں گیا تھا۔
جب وہ اپنے فون سے تصویر کھینچ رہا تھا تب سویلین کپڑوں میں ملبوس آدمی ان کے پاس آیا، اور دعویٰ کرنے لگا وہ ایک انٹیلیجنس افسر ہے۔ اس شخص نے میرے دوست پر ممنوعہ جگہ کی تصویر کھینچنے کا الزام لگایا اور فون لے کر اس میں سے سم کارڈ نکال کر اسے واپس دیا اور موبائل فون ضبط کر لیا۔
باقی کے تین خارجی خوف میں مبتلا تھے اور خاموشی کے ساتھ اس شخص کی ہر بات مان رہے تھے اور ان کا افغان محافظ بھی چپ چاپ یہ سب دیکھ رہا تھا۔ بہروپیا میرے دوست کا موبائل فون لے کر چلا گیا۔ حالات میرے لیے بھی بہت خراب ہو سکتے تھے مگر بچت ہوگئی۔
مگر کوئی بھی چیز مجھے مزار شریف شہر کے سفر بذریعہ سڑک سے روک نہیں پائی۔ جو شہر کے شمال میں ازبکستان سرحد کے قریب واقع ہے۔ اس شہر کی مشہور نیلے رنگ کی مسجد کے بارے میں مقامی لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ حضرت علی کی جائے تدفین ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں سے مزار شریف ناخوشگوار حوالوں سے کافی خبروں میں رہا ہے۔
روسی قبضے کے دوران یہ ایک فوجی مرکز رہا، 1997 تک یہ شہر قریب 5 برسوں تک ازبک سپہ سالار عبدالرشید دوستم کا قلعہ بنا رہا، جس کے بعد ان کے ہی ایک جنرل، عبدالملک پہلوان کے نتیجے میں انہیں وہاں سے مجبوراً فرار ہونا پڑا۔
1998 سے 2002 تک یہ شہر طالبان کے زیر قبضہ رہا۔ یوں اس شہر نے قتل عام اور بربریت کے کئی مناظر دیکھے ہیں۔
سب سے زیادہ بدنام زمانہ واقع تب پیش آیا تھا جب 2002 میں امریکیوں کی جانب سے طالبان کے قبضے سے آزاد کروانے کے بعد دوستم نے دوبارہ کنٹرول سنبھالا، تب انہوں نے سینکڑوں قیدیوں کو شہر کے جنوب میں شپنگ کنٹینر میں بند کر دیا، اور وہ شدید گرمیوں کے موسم میں کنٹینر کے اندر جھلستے رہے۔ دوستم کے اس ظلم و ستم کو افغان مساکر: دی کنوائے آف ڈیتھ نامی دستاویزی فلم میں بھی پیش کیا گیا ہے۔
مزار شریف کی بدنامی سے بھی زیادہ میری توجہ کا مرکز 400 کلومیٹر طویل وہ سڑک بنی جو اس شہر کو کابل سے ملاتی ہے۔ کیونکہ سڑک پر چلتے حالیہ افغان تاریخ کے واقعات سے منسلک کئی مقامات کا نظارہ ہوتا ہے، جن میں چاریکر، بگرام، شمالی میدان، وادئ پنجشیر، پلِ خمری وغیرہ شامل ہیں۔
ان سے بڑھ کر مشہور وہ سلانگ ٹنل ہے جسے 1964 میں روسیوں نے تعمیر کیا تھا۔ شمالی افغانستان کو جنوبی افغانستان سے ملانے کا یہ واحد راستہ ہے۔
3400 میٹرز کی بلندی پر بنے اس ٹنل کو 1979 تک بلند ترین ٹنل ہونے کا اعزاز حاصل تھا لیکن بعد میں امریکا کی شاہراہ، آئی - 70 پر بنے آئزن ہاور ٹنل نے صرف ایک میٹر کی بلندی کے ساتھ سلانگ ٹنل سے یہ اعزاز چھین لیا۔ ہاں مزار شریف جانے کے لیے اس راستے کا انتخاب کرتے ہوئے تھوڑا ڈر تو لگا لیکن کم از کم بذریعہ جہاز جانے سے تو بہتر فیصلہ تھا۔ 2.67 کلومیٹر طویل یہ ٹنل 1982 میں نہایت اذیت ناک مناظر دیکھ چکا ہے، کہ جب دو روسی فوجی قافلوں کے ساتھ یہاں حادثہ پیش آیا تھا۔
اس بھیانک حادثے میں 2 ہزار سے زائد افراد کی موت ہوئی تھی، جن میں اطلاعات کے مطابق 700 روسی فوجی تھے۔ 2010 میں ٹنل کے دونوں اطراف پہاڑی تودے گرنے کے یکے بعد دیگر کئی حادثات پیش آئے جس کے نتیجے میں 172 افراد ہلاک ہوئے۔
ذہن میں ان واقعات کو سوچ کر گھبراہٹ سے ہونے لگی تھی۔ ٹنل میں داخل ہوئے تو میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ یہاں تو سڑک بھی نہیں بلکہ ایک چٹانی سطح ہے اور وہ بھی پگھلتی برف کی وجہ سے پھسلن بھری ہوچکی ہے، یہی نہیں بلکہ ایندھن کے ٹرکوں کے قافلوں کی وجہ سے گاڑی کے گزرنے کا راستہ ہی نہیں تھا۔ ایک چھوٹا حادثہ بھی ایک بڑی تباہی کا باعث بن سکتا تھا۔
پھر مرکزی ٹنل کے دونوں اطراف ہیئرپن نما موڑ تھے اور شاید دو درجن بڑے ذیلی ٹنل موجود تھے۔ پنکچر ٹائروں کی وجہ سے کھڑے ٹرک بڑی ہی بے ترتیبی کے ساتھ ٹنل میں یہاں وہاں کھڑے تھے۔ ٹریفک کا بہاؤ گھونگے کی چال چل رہا تھا، جو میرے خوف کو اور بھی بڑھا رہا تھا۔
پورے سفر کے دوران آپ کو طرح طرح کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں، پہلے شمالی میدان آتے ہیں، پھر بلند وبالا اور برف پوش پہاڑ، جس کے بعد سر سبز و شاداب وادیاں جس کے دونوں اطراف پہاڑ کھڑے ہوئے ہوتے ہیں، ان سب جگہوں کو دیکھنے کے بعد بالآخر سفر کا اختتام مزار شریف کے میدانوں میں ہوتا ہے۔ ماننا پڑے گا سفر کے آغاز سے لے کر آخر تک بڑے ہی دلکش نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔
جب ہم مزار شریف کے جنوب میں 200 کلومیٹر دور واقع پلِ خمری سے گزرے تو میرے پشتون ڈرائیور، جس کا تعلق قندوز سے ہے، نے مجھے خبردار کرتے ہوئے بتایا کہ آگے 100 کلومیٹر تک علاقہ کافی خطروں بھرا ہے، کیونکہ وہاں طالبان کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ لیکن مزار شریف کا میرا سفر بخیر و عافیت گزرا، البتہ جگہ جگہ بکتر بند گاڑیاں، اور فوجی یا پولیس چیک پوائنٹس کی موجودگی دیکھ کر ممکنہ خطرات کا بخوبی اندازہ ہو رہا تھا۔
مگر اگلے دن جب ہم واپس جا رہے تھے تب تک صورتحال تبدیل ہو چکی تھی۔ جب اسماعیل نے آگے کے راستے کی سیکیورٹی صورتحال معلوم کرنے کے لیے اپنے جاننے والوں کو فون کیا تو میں نے اس کی گفتگو میں پریشانی محسوس کی۔
اسماعیل کا رویہ کافی بدل گیا تھا۔ نو بچوں کا والد اسماعیل مجھے کافی زیادہ پریشان نظر آیا۔ ایک لفظ کہے بغیر اس نے تیزی کے ساتھ یوٹرن لیا اور گاڑی کو تقریباً ایک کلومیٹر دور واقع قریبی پولیس چیک پوائنٹ پر پارک کردیا۔
میں نے اسماعیل سے وجہ پوچھنی مناسب نہیں سمجھا لیکن اسماعیل نے خود مجھے وجہ بتائی کہ آگے خطرہ ہے اور ہمیں انتظار کرنا ہوگا۔ خوش قسمتی سے کچھ فون کالز کے بعد اس میں اعتماد بحال ہوا اور گاڑی کھڑے کیے ابھی ایک گھنٹہ بھی نہیں ہوا تھا کہ ہمارے سفر کا دوبارہ آغاز ہوگیا۔
ابھی ہم نے محض ایک کلومیٹر ہی عبور کیا تھا کہ میں نے بکتر بند گاڑیوں کو چلتے دیکھا اور فائرنگ کی آواز سنی۔ تیزی کے ساتھ وہاں سے نکلنے کے چکر میں ہماری گاڑی بندوقوں کے ساتھ علاقے کا جائزہ لے رہی تین بکتر بند گاڑیوں کے بیچ میں سینڈ وچ ہو گئی تھی۔
میں نے اسماعیل سے کہا کہ وہ قطار توڑ کر آگے نکلنے کی کوشش کرے، مگر ایک خطرناک صورتحال سے نکلنے کی کوشش میں ہم ایک اور خوفناک صورتحال میں پھنس گئے۔ اب ہم دو بڑے آئل ٹینکروں کے بیچ میں سینڈوچ بن چکے تھے۔ کسی بھی آئل ٹینکر کو گولی لگنے کا مطلب دھماکے اور ہلاکت خیز آتشزدگی کی صورت میں نکلتا۔
میں نے ایک بار پھر اسماعیل سے ٹینکروں کو اوورٹیک کرنے کے لیے کہا جو اس نے کیا۔ تھوڑی دیر میں فائرنگ رک گئی اور ہم ثابت و سالم پلِ خمری پہنچ گئے، اور وہاں سے کابل۔
اگلے دن میں نے افغانستان کے مرکزی پشتون شہر جلال آباد کا ایک روزہ دورہ کیا جو طورخم بارڈر سے زیادہ دور واقع نہیں ہے۔
یہی وہ جگہ ہے کہ جہاں بادشاہ امان اللہ خان اور خدائی خدمتگار تحریک کے سربراہ خان عبدالغفار خان، جنہیں سرحدی گاندھی بھی کہا جاتا ہے، دفن ہیں۔ جلال آباد افغان کرکٹ ٹیم کے ایک بڑے حصے کا آبائی شہر بھی ہے۔
سڑک کے ساتھ ساتھ سروبی وادی بھی ہے جہاں سڑک اٹھتی ہے، بل کھاتی ہے، اور مڑتی ہے، اور مسافروں کو زبردست نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔
میں سروبی کو اس جگہ کے طور پر جانتا تھا جہاں طالبان نے اپنی فتح کے آخری مراحل میں گلبدین حکمت یار کے جنگجوؤں کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ جب وہ کامیاب ہو چکے تو اب ان کے سامنے صرف شمال کے ایک چھوٹے سے حصے میں احمد شاہ مسعود باقی تھے۔
سڑک سے کابل کے مضافات میں واقع بدنامِ زمانہ پلِ چرخی جیل بھی نظر آتا ہے۔ یہ ایک وسیع و عریض ہائی سیکیورٹی جیل ہے جو کابل-جلال آباد ہائی وے پر کئی کلومیٹرز تک پھیلا ہوا ہے، اور 1980 کی دہائی کے اوائل میں اپنی تعمیر سے لے کر اب تک قیدیوں پر بدترین تشدد کے لیے جانا جاتا ہے۔
میں نے اپنے دو ڈرائیوروں، جن کے ساتھ میں نے کئی گھنٹے گزارے تھے، سے سیاسی باتیں کرنے سے گریز کیا بھلے ہی میں افغانستان کے حالیہ واقعات پر ان کے خیالات جاننے کے لیے بے تاب تھا۔ مگر میرے سیدھے سادے سوال، کہ ان دونوں کی رائے میں ملک کا سب سے بہترین حکمران کون تھا — اور میں نے بادشاہ ظاہر شاہ، سردار داؤد، نور محمد تراکی، حافظ اللہ امین، ببرک کارمل، نجیب اللہ، اور حامد کرزئی سے لے کر اشرف غنی تک سب کے نام گنوائے — مگر میرے ایک تاجک اور ایک پشتون ڈرائیور، دونوں کا جواب ایک ہی تھا: ڈاکٹر نجیب اللہ، جو 1987 سے 1992 تک روسی فوجوں کے انخلاء کے بعد ملک کے صدر رہے۔
نجیب اللہ پشتون احمد زئی قبیلے کے ایک بااثر شخص تھے جنہوں نے بغیر کسی غیر ملکی دباؤ یا کنٹرول کے آزادانہ حکومت کی۔
1988 میں روسی افواج کے انخلاء کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ ان کی حکومت دھڑام سے آ گرے گی، مگر ان تمام توقعات کے برعکس وہ ریاست کو قائم رکھنے میں کامیاب رہے، یہاں تک کہ انہیں 1992 میں ان کے اپنے ہی اتحادی عبدالرشید دوستم نے دھوکہ دیا، جب انہوں نے اقوامِ متحدہ کے ایک کمپاؤنڈ میں پناہ لے رکھی تھی۔
نجیب اللہ بہادر شخص تھے۔ جب احمد شاہ مسعود نے طالبان کی جانب سے کابل پر قبضے کے پیشِ نظر یہاں سے اپنے جنگجوؤں کو نکال کر شمال میں اپنے گڑھ واپس جانے کی ٹھانی، تو انہوں نے نجیب اللہ کو اپنے ساتھ لے جانے کی پیشکش کی مگر نجیب اللہ نہ مانے۔ جب 1996 میں طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو انہوں نے ڈاکٹر نجیب اللہ کو نہایت بے دردی سے قتل کر ڈالا۔
افسوس کی بات ہے کہ مجھے ہرات یا بامیان جانے کا موقع نہیں ملا کیوں کہ میرا افغان ویزا صرف دس دن کے لیے مؤثر تھا۔ مگر میں خوش تھا کہ مجھے اس ملک میں وقت گزارنے اور اسے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
لکھاری ماڈرن ہسٹری میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں۔ ان سے ان کی ای میل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے. [email protected]
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (11) بند ہیں