• KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm

سی پیک قرضوں کی ادائیگی 5ارب ڈالرزسالانہ ہوجائے گی: مشیر وزیراعظم

شائع May 11, 2017

اسلام آباد: حکومت پاکستان کے چیف ماہر اقتصادیات کا کہنا ہے کہ پاکستان کا قرضہ اور پاک-چین اقتصادی راہداری منصوبے میں دی جانے والی دیگر ادائیگیاں 2022 تک 5 ارب ڈالرز تک پہنچ جائیں گی۔

چین نے پاکستان میں ریلوے، سڑک اور توانائی کے شعبوں میں شاہراہ ریشم پر 57 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنے کا عہد کیا ہے۔

ماہرین نے امید ظاہر کی ہے کہ گوادر پورٹ کے آغاز اور موٹروے مکمل ہونے کے بعد پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والی تجارت میں اضافہ ہوگا۔

پاک-چین اقتصادری راہداری (سی پیک) منصوبہ پاکستان کی سست معیشت کو بڑھانے کے لیے ایک قرضہ ہے لیکن سرمایہ کاروں نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ جیسے ہی قرضوں کی واپسی کا سلسلہ اور چینی کمپنیاں منافع اپنے ملک لے جانا شروع ہوجائیں گی تو پاکستانی کرنسی شدید دباؤ کا شکار ہوجائے گی۔

مزید پڑھیں: 'سی پیک پاکستان میں ماحولیاتی مسائل کی وجہ نہیں بنے گا'

وزیراعظم کے مشیر برائے سی پیک ندیم جاوید نے غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ خدشات غلط ہیں کیونکہ اسلام آباد چین سے آنے اور جانے والی اشیاء پر فیس کی مد میں کثیر رقم کمائے گا۔

ندیم جاوید نے کہا کہ گوادر سے سنکیانگ تک یہ راہداری اگلے برس جون سے قابل عمل ہوجائے گی اور پاکستان کو امید ہے کہ دنیا بھر کی تجارت کا 4 فیصد تک کا حصہ اس راہداری سے ہی گزرا کرے گا۔

وزارت منصوبہ بندی کے چیف ماہر اقتصادیات کا کہنا تھا کہ تمام قسم کے ٹول ٹیکس اور کرایوں کی مد میں پاکستان کو اندازاَ 6 سے 8 ارب ڈالرز تک سالانہ فائدہ حاصل ہوگا، ساتھ ہی انھوں نے امید ظاہر کی کہ 2020 تک پاکستان یہ توازن حاصل کر لے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ چین کے لیے مغربی دنیا کے ساتھ تیل اور دیگر اشیاء کی تجارت کی غرض سے سی پیک کا استعمال کرنا فائدہ مند ہے کیونکہ سی پیک نے چین کے روایتی راستے کو 15 ہزار کلومیٹر تک کم کردیا ہے جبکہ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اسے کروڑوں لیٹر ایندھن کی بچت بھی ہوگی۔

مستقبل کی پیشگوئی کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ تجارت کوئی درست سائنس نہیں ہے، اگر پاکستان کی بہتر صورتحال خراب ہوتی ہے تو پاکستان کے بلند نظر اہداف دبارہ ماند پڑ سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:سوئس کمپنیاں سی پیک میں شمولیت کی خواہاں

تاہم چینی حکام نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ ملک میں سیکیورٹی کی صورتحال کو مزید بہتر کیا جائے اور اسی وجہ سے پاکستانی حکام نے بلوچستان میں غیر ملکیوں کی نقل و حمل کو محدود کردیا ہے۔

سرمایہ کار بھی پاکستان کے بڑھتے ہوئے خسارے پر نظر رکھے ہوئے ہیں جو سی پیک منصوبے کے لیے برآمد کی جانے والی مشینری کی وجہ سے 160 فیصد سے 6 ارب 10 کروڑ ڈالرز تک پہنچ جائے گا۔

ندیم جاوید کا کہنا تھا کہ قرض کی ادائیگی اور سی پیک سے ہونے والے منافع کی منتقلی 2019 سے شروع ہوجائے گی اور یہ 1 ارب 50 کروڑ ڈالر سے 1 ارب 90 کروڑ ڈالر تک ہوگی جو کہ بڑھ کر آئندہ سال 3 ارب ڈالر سے 3 ارب 50 کروڑ ڈالر تک پہنچ جائے گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ آغاز میں یہ ادائیگی کم رہے گی لیکن 2022 تک یہ اپنی انتہائی سطح پر پہنچ کر 5 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی جبکہ حکومت اس امکان کے بارے میں نہیں سوچ رہی کہ پاکستان ادائیگیوں کے بحران کا شکار ہوجائے گا۔

یاد رہے کہ اس سے قبل 2013 میں بھی پاکستان اسی قسم کی مالی مشکلات کا شکار ہوا تھا, جس کے بعد اس نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے مدد حاصل کی تھی۔

مزید پڑھیں: 'پاک بحریہ سی پیک کو درپیش خطرات سے نمٹنے کیلئے تیار'

ماہر اقتصادیات کا کہنا ہے کہ سی پیک ملکی اقتصادی ترقی کو فروغ دے گا اور اس سے بجلی نظام میں 7 ہزار میگا واٹ کے پاور پروجیکٹس کی تکمیل کے بعد ملک میں جاری توانائی بحران کو کم کرنے میں مدد ملے گی اور در آمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔

ندیم جاوید نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان اور چین نے دونوں ممالک کے مرکزی بینکوں کے مابین کسی بھی تیسری بین الاقوامی کرنسی کے استعمال سے بچنے کے لیے طریقہ کار وضع کرنے کا معاہدے کرنے کے حوالے سے بھی بات چیت کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسا طریقہ کار لاگو ہو جاتا ہے تو یہ ایک بفر کی طرح کام کرے گا جو کسی بھی غیر متواقع حالات میں ہونے والی نادہندگی کی روک تھام کر سکتا ہے۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی بھی غیر متوقع حالات کی صورت میں ہنگامی انتظامات موجود ہیں۔

یہ خبر 11 مئ 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 28 نومبر 2024
کارٹون : 27 نومبر 2024