• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

رمضان نشریات میں اب کیا پیش کیا جائے گا؟

شائع May 6, 2017 اپ ڈیٹ May 9, 2017

رمضان کی آمد آمد ہے، منافع خوروں کی اپنی تیاریاں جاری ہیں، خواتین رول اور سموسے بنا کر فریز کرنے میں مصروف ہیں جبکہ نجی ٹی وی چینلز کے شعبہ پروگرامنگ اس سوچ و بچار میں مصروف ہیں کہ اس سال رمضان ٹرانسمیشن میں ایسا کون سا سیگمنٹ متعارف کروایا جائے جو کسی اور حریف چینل کے پروگرام میں آج تک نہ دکھایا گیا ہو۔

آج سے 20 سال پہلے ماہِ رمضان کا نقشہ کھینچا جائے تو سحری کے آغاز و انجام اور افطار کے موقع پرقریبی مسجد سے بلند ہوتی سائرن کی آوازوں، ہر محلے میں ایک مخصوص ڈھول والے کی آمد، اور لوگوں کے گھروں میں موجود ٹیپ ریکارڈرز سے بلند ہوتی تلاوت، نعت و نشید کی آوازوں کے علاوہ کوئی قابل ذکر بات یادداشت میں سر نہیں اٹھاتی۔

لیکن بھلا ہو 21 ویں صدی کا کہ جس نے ماہ و سال کے رنگ ڈھنگ ہی بدل ڈالے، بارش کے بعد خودرو پودوں کی طرح اچانک سامنے آنے والے ڈھیر سارے نجی چینلز اور ان چینلز کی جانب سے ٹی آر پیز کی جنگ نے مختلف نشریات کو جنم دیا اور یوں عوام کو رمضان ٹرانسمیشن کی متنوع ورائٹی نصیب ہوئی۔

جس میں حمد و نعت کا پررونق سیگمنٹ، تاریخ کے جھروکوں سے مذہبی عقیدت کو جھنجھوڑنے کے سیگمنٹ کے ساتھ ساتھ زکوۃ، فطرہ، صدقات نکالنے اور نکلوانے کا سیگمنٹ، سوالات یا عزت نفس کے بدلے مشہور برانڈز کی مصنوعات کے علاوہ گاڑیاں اور موٹر سائیکل تحائف کی صورت میں دینے کا سیگمنٹ، دسترخوان انواع و اقسام کے کھانوں سے سجانے کا سیگمنٹ، مختلف مکاتب فکر کے علماء کو آپس میں الجھانے کا سیگمنٹ وغیرہ شامل ہیں۔

پڑھیے: ترغیب و خواہشات: رمضان کا نیا چہرہ؟

تھوڑا سا پیچھے جائیں تو نوزائیدہ بچوں کی حوالگی کا بھی ایک سیگمنٹ اس ٹرانسمیشن میں شاندار ناکامی کے بعد بین الاقوامی تنقید سہہ کر اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔

گزشتہ سال کے چند عجیب و غریب واقعات

گزشتہ چند سالوں کے درمیان ان نشریات میں عوام کی ناگواری کے ساتھ دلچسپی کو دیکھتے ہوئے پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کو بھی حرکت میں آنا پڑا، اور کئی مواقع پر ٹرانسمیشن کرنے والے اینکرز یا ان کے متنازع سیگمنٹس کو اپنے کیے کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔

یہ ہی وجہ ہے کہ پیمرا نے اس بار جلد تیاری کرتے ہوئے ان خصوصی رمضان نشریات کے لیے اپنا خاص ہدایت نامہ جاری کیا، جس کے چند نکات یہ ہیں:

  • غربت اور مجبوریوں کو پیش کرکے لوگوں کی عزت نفس کو مجروح نہ کیا جائے۔

  • انعامات ہوا میں اُچھالنے یا پھینک کر دینے پر ممانعت ہوگی۔

  • پروگرام میں ڈانس، گانے، ورزش اور الٹے سیدھے کام پر نہ اکسایا جائے۔

  • پروگرام میں ملبوسات کا خاص خیال رکھنے کی ہدایت کی گئی۔

  • تفریحی یا کوئز پروگرام نشر کرنے کی اجازت رات 9 بجے کے بعد ہوگی۔

  • غیر اخلاقی گفتگو سے پرہیز کرنا ہوگا۔

  • دوران پروگرام انسانی حقوق اور شخصی وقار کا خیال رکھنے کی ہدایت کی گئی۔

  • رمضان ٹرانسمیشن اور معمول کی نشریات میں فرق ہونا چاہیے۔

  • مستند علم رکھنے والوں کو دین سے متعلق گفتگو کے لیے مدعو کیا جائے۔

  • ایسے موضوعات پر گفتگو سے اجتناب کیا جائے جس سے تفریق کو فروغ ملے۔

چینلز اب کیا دکھائیں گے؟

اس ہدایت نامے کے بعد ذہن میں پہلا سوال ہی یہ آتا ہے کہ ٹی وی چینلز اب کیا دکھائیں گے؟

پیمرا کی جانب سے انعامات کو پھینکنے اور اچھالنے پر پابندی کے بعد معروف ٹینس اسٹارز کی طرح انعامات پھینکنے والے اینکرز اور پاکستانی وکٹ کیپرز جیسی بہترین صلاحیت سے انعامات کیچ کرنے والے حاضرین محفل، دونوں ہی کو تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

پابندی کے بعد ٹرانسمیشن کا 'ٹیمپو' برقرار رکھنے کے لیے پروگرامنگ کا شعبہ یقیناً انعامات کی تقسیم کے لیے نئے طریقے سوچنے میں مصروف ہوگا۔

پش اپس؟ آواز کا جادو؟ میاں بیوی، ساس بہوؤں، نند بھابھیوں کی نوک جھوک اور مباحثے؟ ، ان سب کے بغیر رمضان ٹرانسمیشن کی ٹی آر پیز بھی کہیں نہیں دکھائی دیتیں۔

لہذا پیمرا کی جانب سے ڈانس، گانے اور تمام اوٹ پٹانگ سرگرمیوں پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد چینلز کو ریٹنگز کی جنگ جیتنے کے لیے میسر آپشنز خاصے کم نظر آتے ہیں۔

ایک طرف جہاں پروگرام میں ملبوسات کا خاص خیال رکھنے کی ہدایت دے کر پیمرا نے رمضان فیشن ٹرینڈز کا سدباب کرنے کی کوشش کی ہے، وہیں غربت اور مجبوریوں کو پیش کرکے لوگوں کی عزت نفس کو مجروح نہ کرنے کی ہدایت کے بعد حاضرین و ناظرین کو آب دیدہ کرنے والے سیگمنٹس کی گنجائش بھی نہیں بچتی جو اب تک سحری اور افطاری کے اوقات کا اہم ترین حصہ رہے ہیں۔

رمضان ٹرانسمیشن میں غیراخلاقی گفتگو سے پرہیز اور انسانی حقوق و شخصی وقار کا احترام کرنے کی ہدایت دینے کے بعد نگراں ادارہ معزز اینکرز کو ٹرانسمیشن کے بیشتر اسکرپٹ سے محروم کرچکا ہے۔

پڑھیے: رمضان نشریات حرام ہیں: فتویٰ

تفریحی اور کوئز پروگرامات، جنہیں اگر رمضان ٹرانسمیشن کا خاصہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، کو 9 بجے کے بعد نشر کیا جاسکے گا تو ٹی وی چینلز ہزارہا محنت سے پاس لے کر ان ٹرانسمیشن کا حصہ بننے والے افراد کو افطاری کے بعد 9 بجے تک انٹرٹین کرنے کے لیے کن نئے سیگمنٹس کا اضافہ کریں گے؟

جیسا کہ گذشتہ برس بھی کچھ میزبان اور اینکر صاحبان خالصتاََ مذہبی معاملات پر متنازع گفتگو کی وجہ سے پابندی کا نشانہ بنے، تو کیا پیمرا کے اس ہدایت نامے کے بعد امسال ایسی گفتگو کا سدباب ہوجائے گا؟

یہ بھی یاد رہے کہ حالیہ چند ماہ میں مذہبی معاملات پر لوگوں میں بڑھنے والا مشتعل جذباتی رویہ کئی جانوں کو نگل چکا ہے۔

ایسی صورتحال میں کہ جہاں ایک مختصر سا بیان کئی پہلوؤں سے عوام کو مشتعل اور ان کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی وجہ بن سکتا ہے، وہاں رمضان ٹرانسمیشن میں میزبانوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوگی۔

پیمرا کے ہدایت نامے اور پاکستان میں رمضان ٹرانسمیشن کی تاریخ میں سامنے آنے والے واقعات کے درمیان ربط ڈھونڈ پانا بظاہر ناممکن سا لگتا ہے، ساتھ ہی بےربطی اس تجسس کو بھی بڑھانے کا سبب بنتی ہے کہ ان پابندیوں اور احکامات کے بعد اس برس کی رمضان ٹرانسمیشن میں کیا کچھ 'خصوصی' ہوگا جو تابڑ توڑ ریٹنگز لے آئے۔

سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیمرا اپنے ادارے کو حاصل اختیارات اور فرائض کو پورا کر پائے گا، کیونکہ ابھی ابھی ایک پریس کانفرنس میں پیمرا کے چیئرمین ابصار عالم نے اپنی زندگی کو خطرے میں ہونے کا اظہار کیا، ان کے مطابق ان کی ٹیم کے دیگر ممبران کو بھی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔

اگرچہ اس کا تعلق ابھی تک رمضان ٹرانسمیشن سے منسلک تو نظر نہیں آتا مگر یہاں سوال ادارے اور اس کے نمائندگان کے اختیارات کے استعمال میں دیگر ملکی اداروں کی معاونت کا ہے۔ دوسری جانب ادارے پر اٹھنے والی انگلیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، کہ وہ ہر معاملے میں غیر جانبدار ہو کیونکہ ایک خود مختار ادارہ صحیح معنوں میں اسی وقت بہتر کارکردگی دکھا سکتا ہے جب دیگر ملکی ادارے اس کی خود مختاری کا دفاع کریں، اور مذکورہ ادارہ بھی کسی کی طرف داری کرتا ہوا نظر نہ آئے۔

خدا ادارے کے افراد کو حفظ و امان میں رکھے اور رمضان کا تقدس بھی بحال رہے۔

صدف ایوب

لکھاری ڈان نیوز سے وابستہ رہی ہیں

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (4) بند ہیں

Kamal May 09, 2017 05:15pm
problem yah hay kay hum in kharafat kay intay aadi ho gaye hain kay yah sub ab sahi lagnay laga hay
asad May 09, 2017 05:32pm
written very well, especially the rules specified by Pemra, if they are truly followed than Ramadan would be really blessed one.
Daudpota May 09, 2017 10:39pm
this code of conduct is just like section 144 (Dafa'a-144). Easy to impose, Easy to break... No Tension
ali May 10, 2017 09:24am
i am worried abt this year ramzan transmission,, if I am one of the anchor I will refuse to do the program,, it will be insane to do program under such hostile situation,,

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024