افغان پالیسی کا جائزہ مکمل، امریکا کا 23ارب ڈالرز امداد کا اعلان
واشنگٹن: ٹرمپ انتظامیہ نے افغان پالیسی کا جائزہ مکمل کرتے ہوئے نئی پالیسی میں افغانستان میں موجود امریکی حمایت یافتہ سیٹ اَپ کو برقرار رکھنے کے لیے سالانہ 23 ارب ڈالرز کی فراہمی کا اعلان کردیا۔
امریکا کی نئی افغان پالیسی میں افغان فوجیوں پر حملوں میں ملوث عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے لیے مزید امریکی اور نیٹو افواج کو بھیجنے کی ضرورت کو بھی واضح کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ رواں سال کے پہلے 2 ماہ کے دوران ان عسکریت پسندوں کے حملوں میں 800 سے زائد افغان فوجی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
بلوم برگ نیوز ایجنسی کے کالم نگار ایلی لیک لکھتے ہیں کہ 'افغانستان روانہ کیے جانے والے فوجیوں کی تعداد طے نہیں کی گئی، تاہم امریکی حکام نے انہیں بتایا کہ وہ ملک میں امریکی اور نیٹو دونوں افواج کی تعداد میں اضافے کا ارادہ رکھتے ہیں'۔
ایلی لیک اصرار کرتے ہیں کہ کچھ امریکی سالانہ امداد کے لیے تجویز کردہ 23 ارب ڈالرز کو 'مہنگا' سمجھتے ہیں لیکن انہیں 'ان اخراجات کے بارے میں سوچنا ہوگا جو اُس وقت سامنے آئیں گے جب امریکا افغانستان کی بحالی میں ناکام ہوجائے گا اور ملک ایک بار پھر دہشت گردوں کا محفوظ ٹھکانہ بن جائے گا جیسے کہ نائن الیون سے قبل تھا'۔
امریکا کی یہ امداد افغانستان میں مختلف اقدامات میں استعمال کی جائے گی، جن میں افغان پولیس و فورسز کو سبسڈی فراہم کرنا، انسداد دہشت گردی پروگرامز کی فنڈنگ سمیت موجودہ سیٹ اپ کو مستحکم کرنے کے لیے کیے جانے والی دیگر سرگرمیاں شامل ہیں۔
چند میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ ٹرمپ انتظامیہ داعش کی افغانستان میں موجود شاخ کے خاتمے پر بھی کام میں مصروف ہے جو مشرق وسطیٰ سے اس خطے میں داخل ہوئی۔
انتظامیہ کے اس پلان میں دولت اسلامیہ خراسان کا صفایا شامل ہے، اس سے پہلے کہ مزید جنگجو شام اور عراق سے یہاں کا رخ کریں۔
دیگر میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ افغان صدر اشرف غنی کی حکومت کے قیام اور طالبان سے علاقے چھڑانے کی کوشش میں ان کی حمایت بھی کرسکتی ہے۔
امریکی پالیسی طالبان کے ساتھ امن معاہدے کی ضرورت پر بھی زور دیتی ہے تاہم اس معاہدے کو یقینی بنانے کے لیے عسکریت پسندوں کے ٹھکانے پر فوجی حملوں میں اضافے کی تجویز بھی دیتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اوباما انتظامیہ کے برعکس امریکا کی نئی حکمت عملی امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کی کوئی ڈیڈ لائن طے نہیں کرے گی کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ کا ماننا ہے کہ ڈیڈلائنز دینے کے نتیجے میں دہشت گردوں کو اپنی سرگرمیاں مستحکم کرنے کا موقع حاصل ہوجاتا ہے۔
اس کے برعکس نئی امریکی حکمت عملی زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی کا فیصلہ کرے گی۔
یہ خبر 3 مئی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔