ہم ایوارڈز شو میں یاسر حسین کے 'مذاق' پر تنقید
گذشتہ ہفتے لاہور میں منعقد ہونے والے پانچویں 'ہم ایوارڈز شو' میں جہاں بہت سی اچھی باتیں ہوئیں، وہیں کچھ باتیں ایسی بھی ہوئیں، جنھیں نہیں ہونا چاہیئے تھا۔
ان ہی میں سے ایک موقع وہ تھا، جب کامیڈین یاسر حسین نے حاضرین کے سامنے بچوں کے جنسی استحصال کے حوالے سے ایک جملہ کسا۔
جب احسن خان بچوں پر جنسی تشدد کے حوالے سے بننے والے ڈرامہ سیریل 'اڈاری' کے لیے بہترین اداکار (منفی کیٹگری) کا ایوارڈ وصول کرنے کے لیے اسٹیج پر آئے تو یاسر حسین نے کہا، 'اتنا خوبصورت چائلڈ مولسٹر (بچوں کا جنسی استحصال کرنے والا)، کاش میں بھی بچہ ہوتا'۔
مزید پڑھیں: ہم ایوارڈز کا میلہ اڈاری اور سنگ مر مر کے نام
یاسر حسین کے ان ریمارکس کے بعد سوشل میڈیا پر لوگوں نے دل کھول کر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا، کچھ نے تو کامیڈین کو براہ راست تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ دیگر نے شو میں شریک اسٹارز کو نشانہ بنایا، جو اس مذاق پر ہنستے رہے۔
دوسری جانب جبران ناصر جیسے کچھ سماجی کارکنوں نے اس واقعے کی نشاندہی کی اور سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح بچوں پر جنسی تشدد کے معاملے کو اتنا 'ہلکا' لیا گیا۔
اگرچہ یاسر حسین نے اپنے اس بیان کے بعد معافی مانگ لی، جن کے مطابق یہ بیان اسکرپٹ میں شامل نہیں تھا، لیکن اس قسم کے بے ساختہ جملے ہی کبھی کبھار صورتحال کو مزید خراب کردیتے ہیں اور اچانک سامنے آنے والی صورتحال میں یہ بتاتے ہیں کہ ہم اصل میں کیا ہیں اور اگر یہی بات ہے تو کیا یاسر حسین نے بھی خود اپنے بارے میں یہ انکشاف کیا کہ شاید ان کی نظر میں جنسی تشدد کوئی مزاحیہ چیز ہے؟
مجھے امید ہے، نہیں! کیونکہ یاسر حسین اور احمد علی بٹ سمیت انڈسٹری کے دیگر مشہور نام ان ایوارڈز شو اور فلموں کے ذریعے ناظرین کو اپنے ہنسی مذاق سے محظوظ کرنے کے ذمہ دار ہیں، جسے پورے پاکستان میں دکھایا جاتا ہے۔
میں ہفتہ (29 اپریل) کو 'ہم ایوارڈز شو' کی تقریب میں موجود تھی اور یاسر حسین کا مذکورہ مذاق بھی اُن چند برے لمحات میں سے ایک تھا، اسی طرح کا ایک اور لمحہ وہ بھی تھا، جب شو کے آغاز پر یاسر نے ایک پٹھان پھل فروش کی نقل اتاری تھی۔
شو کے آغاز میں یاسر حسین ایک پھل فروش کے بھیس میں اسٹیج پر آئے اور پٹھانوں کے حوالے سے بہت سے جملے کسے، یہ ایک بہت نسل پرستانہ اور دقیانوسی قسم کا رویہ تھا اور میں سوچ رہی تھی کہ کب تک ہمارے دیسی کامیڈین مذاق کے لیے نسل، جنسیت اور جنس کے ذکر کے ساتھ پاکستان کی زیادہ تر مشکلات کا استحصال کرتے رہیں گے؟
اور میرا خیال ہے کہ مجھے اس فہرست میں معذوری کو بھی شامل کرنا چاہیئے کیونکہ گذشتہ سال لکس اسٹائل ایوارڈز شو میں احمد علی بٹ نے بونوں (چھوٹے قد کے انسان) کے حوالے سے شو میں کچھ مذاق کیے تھے۔
اس طرح کے غیر مزاحیہ جملے ان ایوارڈز شوز، مارننگ شوز اور روزمرہ زندگی کا خاص حصہ ہیں اور یہ بات بھی کچھ عجیب نہیں ہے کہ ہماری تو قومی اسمبلی میں بھی اس طرح کے مذاق عام ہیں، جہاں ارکان اسمبلی اس طرح کے ریمارکس دے دیتے ہیں۔
ہم یہ بات بھولتے جارہے ہیں کہ کامیاب مزاح طاقتوروں کو آئینہ دکھانے سے سامنے آتا ہے، محروم طبقے پر سستے جملے کسنے سے نہیں۔
شکر ہے کہ اس معاملے میں یہ بات سامنے آئی اور سوشل میڈیا پر لوگوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ برے مذاق کو اب جگہ نہیں دی جائے گی، جیسا کہ یاسر حسین کے حالیہ ریمارکس پر لوگوں نے ان سے معافی کا مطالبہ کیا۔
جب میں نے یاسر حسین سے بات کی تاکہ ان کا موقف جان سکوں تو ان کا کہنا تھا، 'سب سے پہلے تو یہ کہ لوگ میرے سیگمنٹ کے پہلے حصے کی بات نہیں کر رہے، جس سے لوگ خوب محظوظ ہوئے، میری پرفارمنس کے مثبت پہلو کو ایک طرف کیوں کردیا گیا؟'
ان کا مزید کہنا تھا، 'دوسری بات یہ ہے کہ جب آپ فی البدیہہ بولتے ہیں تو آپ کے منہ سے کچھ ایسی باتیں بھی نکل جاتی ہیں، جو مناسب نہیں ہوتیں، میں نے جو بھی کہا، وہ احسن خان کی تعریف میں بولا، اس کا بچوں پر جنسی تشدد سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، میں واقعی بچوں کے جنسی استحصال کی حوصلہ افزائی نہیں کرنا چاہتا تھا، لیکن اگر اس سے لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے، تو میں اس کے لیے معذرت کرچکا ہوں، کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اس کے بعد یہ معاملہ ختم ہوجانا چاہیئے؟'
یہ بھی پڑھیں: ڈراما اڈاری کو 'غیراخلاقی مواد' پر پیمرا کا نوٹس
یاسر نے کہا، 'سچ تو یہ ہے کہ اس سب کے بعد میں مکمل طور پر شوز کی میزبانی ترک کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں'۔
میں اس بات کو قبول کرنے کو تیار ہوں کہ یاسر حسین بچوں کے جنسی استحصال کے معاملے پر روشنی نہیں ڈالنا چاہتے تھے، وہ ایک باصلاحیت پرفارمر ہیں اور حتیٰ کہ ہم میں سے بہترین لوگ بھی غلطیاں کرسکتے ہیں۔
لیکن کم ازکم اس واقعے کو ایک سبق کے طور پر ضرور لیا جانا چاہئیے اور جیسا کہ ایک بھرپور معذرت جائز تنقید کا بہترین جواب ہے، لہذا اگر کوئی کامیڈین غلطی کرتا ہے تو انھیں اسے تسلیم کرنا چاہیئے، بجائے اس کے کہ اس چیز کو ترک کردیا جائے۔
اور آخر میں ہمیں بھی خود کو تبدیل کرنا چاہیئے، ہماری انٹرٹینمنٹ برادری کو اسکرپٹس لکھتے وقت انھیں اچھی طرح دیکھنا چاہیئے اور کامیڈینز سے بھی بہتر مزاح کا مطالبہ کرنا چاہیئے۔
ہماری انٹرٹینمنٹ انڈسٹری اپنے ہی خول میں قائم ہے، جہاں بہت ہی کم تنقید اور مخالف رائے بڑے اسٹارز تک پہنچ پاتی ہے، جس کے نتیجے میں برے آئیڈیاز کا نوٹس نہیں لیا جاتا۔
اس حوالے سے ٹیلی ویژن نیٹ ورکس اور اسپانسرز کو بھی خطوط استوار کرنے چاہئیں کہ سستے شاٹس اور نسل پرستی پر مشتمل مزاح کو جگہ نہ دی جائے۔
دوسری جانب کچھ ذمہ داری شرکاء پر بھی عائد ہوتی ہے، بحیثیت تماشائی ہمیں ایسے جملوں پر ہنسنا بند کردینا چاہیئے۔
چاہے یہ کوئی ایوارڈ شو ہو یا سیاسی جلسہ، مذاق ایک بہت طاقتور آلہ ہے، لہذا اسے سوچ سمجھ کر استعمال کیا جانا چاہیئے۔
تبصرے (1) بند ہیں