لیگی قیادت کا فوج کے تحفظات دور کرنے کے طریقوں پر غور
لاہور/اسلام آباد: پاک فوج کی جانب سے ڈان اخبار کی خبر کے معاملے پر حکومت کے جاری کردہ اعلامیے پر سامنے آنے والے ردعمل کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے گذشتہ روز ایک اہم اجلاس منعقد کیا۔
ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کی صدارت میں رائے ونڈ میں واقع ان کی رہائش گاہ پر ہونے والے اس مشاورتی اجلاس میں شرکت کے لیے وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار اور وزیر داخلہ چوہدری نثار نے لاہور کا رخ کیا۔
2 گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ملاقات میں پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف، ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد بھی شریک تھے۔
اجلاس کے بعد نہ ہی کوئی سرکاری بیان سامنے آیا اور نہ ہی شرکاء نے وزیراعظم کی رہائش گاہ کے باہر منتظر صحافیوں اور میڈیا نمائندگان سے گفتگو کی۔
تاہم ذرائع اور میڈیا رپورٹس کے مطابق اجلاس میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی ٹوئیٹ کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
خیال رہے کہ ہفتہ (29 اپریل) کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ’ڈان کی خبر کے حوالے سے جاری ہونے والا اعلامیہ نامکمل اور انکوائری بورڈ کی سفارشات سے مطابقت نہیں رکھتا، اس لیے نوٹیفکیشن کو مسترد کرتے ہیں۔‘
جس کے بعد وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ 'اداروں کو ایک دوسرے کو ٹوئٹر پر مخاطب نہیں کرنا چاہیئے'۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے اسحٰق ڈار اور چوہدری نثار کو فوج سے رابطہ کرنے اور انکوائری کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں لیے گئے ایکشن پر ان کے تحفظات کو دور کرنے کا ٹاسک سونپا ہے جبکہ وزیراعلیٰ شہباز شریف بھی اس کام میں ان دونوں وزراء کی مدد کریں گے۔
ذرائع کے مطابق، اس معاملے پر سول اور عسکری قیادت کے درمیان آئندہ 24 گھنٹوں میں ملاقات بھی متوقع ہے۔
خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ چوہدری نثار اور وزیراعلیٰ پنجاب فوجی حلقوں میں اچھا میل جول رکھتے ہیں اور متعدد مواقع پر سول-عسکری قیادت کے درمیان اختلافات کو دور کرنے کے لیے سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف سے ملاقاتیں کرچکے ہیں۔
تاہم وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں ایسی تمام خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی ٹاسک کسی کو نہیں دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: ڈان کی خبر کی تحقیقات: طارق فاطمی عہدے سے برطرف
ان کا اپنے پیغام میں کہنا تھا کہ مشاورتی اجلاس کے بعد نواز شریف سے منسوب کیے جانے والے تمام بیانات غلط ہیں اور وزیراعظم نے کسی کو بھی کوئی کام نہیں سونپا۔
دوسری جانب ذرائع یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ اجلاس کے کچھ شرکاء اس بات پر رضامندی کا اظہار کرچکے ہیں کہ منگل (2 مئی) کو تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے نیا نوٹیفکیشن جاری کردیا جائے۔
اس اجلاس کے حوالے سے کئی ٹیلی ویژن چینلز کا کہنا تھا کہ اجلاس میں گذشتہ دنوں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے وزیراعظم پر 10 ارب روپے کی رشوت کے الزام پر قانونی چارہ جوئی کے پہلوؤں پر بھی غور کیا گیا۔
وزیراعظم کے نام سے سامنے آنے والے ان بیانات کے مطابق انہوں نے یہ کہا کہ وہ ہمیشہ سیاست میں محاذ آرائی سے گریز کرتے رہے ہیں اور ایسا ہی کریں گے جبکہ ان کی حکومت نے ہمیشہ قومی مفاد اور جمہوریت کو ہر چیز پر ترجیح دی ہے۔
گذشتہ روز ہونے والے اس اجلاس کے فوراً بعد اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے بھی نواز شریف سے رابطہ کیا اور موجودہ سیاسی بحران میں پارلیمنٹ کے کردار پر تبادلہ خیال کیا۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما نے اعتراف کیا کہ حکومت کو ڈان کی خبر کے معاملے کو حل کرنے کے لیے ایک ٹھوس مؤقف قائم کرنا ہوگا۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ لیگی حلقوں کی توجہ کا مرکز یہ معاملہ نہیں بلکہ آنے والے انتخابات ہیں۔
ایک اور عہدیدار کے مطابق پارٹی، آئی ایس پی آر کی ٹوئیٹ سامنے آنے کے بعد سول سوسائٹی کا ردعمل دیکھنے میں مصروف ہے تاکہ اندازہ لگایا جاسکے کہ اس حوالے سے عوام کی کیا رائے ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا مطالبہ
دریں اثناء پاکستان پیپلز پارٹی حکومت سے مسلسل مطالبہ کررہی ہے کہ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کو عوام کے سامنے آیا جائے اور اس حوالے سے 'شکوک و شبہات' کو دور کرنے کے لیے پارلیمانی اجلاس طلب کیا جائے۔
اتوار کے روز جاری ہونے والے بیان میں پی پی پی کے ترجمان، سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی اور پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤ تحسین کی 'نامناسب انداز میں برطرفی' اور آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی (ای پی این ایس) کو دی جانے والی تجویز نے اس بات کو 'انتہائی ضروری' بنادیا ہے کہ رپورٹ کو عوام کے سامنے لایا جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایس پی آر کی ٹوئیٹ نے معاملے کو مزید گمبھیر کردیا ہے۔
فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ 'وزیر داخلہ چوہدری نثار کا یہ بیان کہ ان کی وزارت سے کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا جبکہ وزیراعظم کا دفتر اس حوالے سے احکامات جاری کرچکا تھا، نے بھی کئی سوالات کو جنم دیا ہے'۔
واضح رہے کہ پی پی پی کا یہ بیان اس سے قومی اسمبلی کی اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی جانب سے سامنے آنے والے ابتدائی بیان سے متضاد ہے جنہوں نے فوج کے ردعمل کی حمایت کرتے ہوئے انکوائری رپورٹ کو مسترد کردیا تھا۔
اس حوالے سے پارٹی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ قیادت خورشید شاہ کو پیغام دے چکی ہے کہ وہ سول عسکری تعلقات کے حوالے سے بیان دیتے ہوئے احتیاط کریں۔