• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

'وزیراعظم کیلئے اگلے 100 روز انتہائی اہم'

شائع April 30, 2017

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف آئندہ 100 روز کے اندر بڑا فیصلہ کرسکتے ہیں۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'دوسرا رُخ' کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں شیخ رشید نے کہا کہ 'ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم اگلے 100 روز میں انتخابات کا اعلان کردیں، کیونکہ اس کے سوا ان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچا'۔

انھوں نے کہا کہ 'نواز شریف کی خواہش ہے کہ وہ مارچ 2018 تک عہدے پر موجود رہیں، لیکن خود ان کی جماعت مسلم لیگ (ن) میں بہت سے لوگ پارٹی کی پالیسی سے ناخوش ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کچھ لیگی ارکانِ قومی اسمبلی انہیں چھوڑنے کا فیصلہ کریں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ 2017 ملکی سیاست کیلئے اہم سال ہے اور اب جب پاناما کا فیصلہ آچکا ہے تو آئندہ 100 روز وزیراعظم کیلئے فیصلہ کن ہوں گے'۔

موجودہ حالات میں سول اور عسکری قیادت کے تعلقات سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے شیخ رشید نے کہا کہ پاک فوج ایک بڑا ادارہ ہے اور جس طرح فوج کے لیے تیسرا سال اہم ہوتا ہے تو اسی طرح حکومت کیلئے اقتدار کا چوتھا سال مشکل ہوجاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ 'میں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کو بہت اچھے سے جانتا ہوں، لہٰذا وہ نواز شریف کے ساتھ نہیں چل سکتے، کیونکہ وہ کرپشن کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں'۔

اس سوال پر کہ آپ کو کیا لگتا ہے کہ اگر وزیراعظم کے جنرل باجوہ کے ساتھ معاملات خوشگوار انداز میں نہ چلے تو مشکل کس کیلئے ہوسکتی ہے؟ تو شیخ رشید نے کہا کہ 'مجھے نہیں معلوم کہ ان میں سے کون پہلے جائے گا، لیکن اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ فوج نواز شریف کو اچھا سیاست دان نہیں سمجتھی'۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری پاناما لیکس کے حالیہ فیصلے پر بات کرتے ہوئے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ نے کہا کہ اگرچہ عدالت نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا، لیکن 90 سے 100 روز میں ایک اور جج وزیراعظم کو نااہل قرار دے دیں گے۔

انھوں نے کہا کہ وزیراعظم عدالتی فیصلے پر سپریم کورٹ میں کوئی نظرِ ثانی درخواست نہیں دائر کررہے، لہٰذا وہ اب جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس فیصلے کے بعد اب فوج پر بہت بڑی ذمہ داری ڈالی گئی ہے اور دیکھنا ہوگا کہ یہ جے آئی ٹی کیا فیصلہ کرتی ہے۔

مزید پڑھیں: پاناما کیس: سپریم کورٹ کا جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ

خیال رہے کہ رواں ماہ 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے تاریخی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا تھا جسے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے اپنی 'فتح' قرار دیا، جبکہ تحریک انصاف بھی اس فیصلے کو اپنی جیت تصور کررہی ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے کورٹ روم نمبر 1 میں پاناما لیکس کے معاملے پر آئینی درخواستوں کا فیصلہ سنایا جسے رواں سال 23 فروری کو محفوظ کیا گیا تھا۔

540 صفحات پر مشتمل اس فیصلے کو جسٹس اعجاز اسلم خان نے تحریر کیا۔

پاناما کیس کے تفصیلی فیصلے کے آغاز میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 1969 کے مشہور ناول 'دی گاڈ فادر' کا ذکر کرتے ہوئے لکھا، 'ہر بڑی دولت کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: پارلیمنٹ میں وزیراعظم سےاستعفے کامطالبہ،پی ٹی آئی کاجلسے کااعلان

فیصلے کے مطابق فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں 7 دن کے اندر جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔

دوسری جانب پاناما لیکس کیس کا فیصلہ آنے کے بعد اپوزیشن کی تین بڑی جماعتوں تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور جماعتِ اسلامی نے وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔


کارٹون

کارٹون : 24 نومبر 2024
کارٹون : 23 نومبر 2024