• KHI: Zuhr 12:30pm Asr 5:06pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 4:44pm
  • ISB: Zuhr 12:05pm Asr 4:51pm
  • KHI: Zuhr 12:30pm Asr 5:06pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 4:44pm
  • ISB: Zuhr 12:05pm Asr 4:51pm

طیبہ کے والدین نے ملزمان پر عائد فرد جرم کو چیلنج کردیا

شائع April 28, 2017

اسلام آباد: تشدد کا نشانہ بننے والی کم سن گھریلو ملازمہ طیبہ کے والدین نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک بار پھر اپنے صلح نامے جمع کراتے ہوئے ملزمان پر عائد فرد جرم کو چیلنج کردیا۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجا خرم علی خان کے گھر میں تشدد کا نشانہ بننے والی ملازمہ طیبہ کے کیس کا ٹرائل اسلام آباد ہائی کورٹ میں روزانہ کی بنیاد پر شروع ہوا تو طیبہ کے والدین نے راجا خرم علی خان اور ان کی اہلیہ کے فرد جرم کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ ان افراد کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

طیبہ کے والد محمد اعظم اور والدہ نصرت بی بی کا اپنے حلف نامے میں کہنا تھا کہ بچی پر ہونے والے تشدد کا راجا خرم اور ان کی اہلیہ سے کوئی تعلق نہیں جبکہ اب وہ مزید اس مقدمے کی پیروی نہیں کرنا چاہتے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کی سماعت کی تو طیبہ کے والد اور والدہ نے بیان حلفی کی دو کاپیاں عدالت میں جمع کرائیں، جن میں کہا گیا تھا کہ غربت اور مالی تنگ دستی کی وجہ سے انھوں نے اپنی 10 سالہ بیٹی طیبہ کو کفالت کے لیے سابق ایڈیشنل سیشن جج راجا خرم علی کے اہل خانہ کے حوالے کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: طیبہ تشدد کیس: ڈومیسٹک چائلڈ لیبر کے خاتمہ کا مجوزہ بل طلب

بیان حلفی کے مطابق طیبہ 27 دسمبر کو سابق ایڈیشنل سیشن جج کے گھر سے لاپتہ ہوئی جس کی اطلاع والدین کو راجا خرم علی نے دی جبکہ اسلام آباد کے آئی 9 تھانے میں بچی کی گمشدگی کی رپورٹ بھی درج کرائی گئی۔

بیان حلفی میں کہا گیا کہ سابق ایڈیشنل سیشن جج راجا خرم علی اور ان کی اہلیہ کے خلاف ایک سازش کے تحت مقدمہ درج کرایا گیا جبکہ یہ دونوں بے گناہ ہیں۔

طیبہ کے والد کی جانب سے جمع کرائے گئے حلف نامے میں یہ بھی کہا گیا کہ وہ راجا خرم علی اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر کو فی سبیل اللہ معاف کرتے ہیں جبکہ ان کے خلاف قائم جھوٹے مقدمے کی پیروی نہیں کرنا چاہتے۔

بیان حلفی میں کہا گیا کہ وہ سوشل میڈیا اور میڈیا پر جھوٹی خبر چلانے پر قانونی کارروائی کا حق بھی محفوظ رکھتے ہیں۔

مزید پڑھیں: طیبہ تشدد کیس: جج، اہلیہ کی درخواست ضمانت منظور

طیبہ کے والدین کی جانب سے سامنے آنے والے صلح ناموں کے بعد عدالت نے پولیس سے واقعے کی ابتدائی رپورٹ 5 مئی تک طلب کرلی۔

طیبہ تشدد کیس — کب کیا ہوا؟

کمسن ملازمہ طیبہ پر تشدد کا معاملہ دسمبر 2016 کے آخر میں اُس وقت منظرعام پر آیا تھا، جب تشدد زدہ بچی کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی تھیں۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجا خرم علی خان کے گھر سے بچی کی برآمدگی کے بعد پولیس نے انھیں اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔

بعد ازاں 3 جنوری کو مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن ملازمہ کے والد ہونے کے دعویدار شخص نے جج اور ان کی اہلیہ کو 'معاف' کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: طیبہ تشدد کیس پڑوسیوں کی 'سازش' ہے، اہلیہ جج

بچی کے والدین کی جانب سے راضی نامے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کم سن ملازمہ پر مبینہ تشدد کے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے بچی اور اس کے والدین کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

اس کے بعد سے پولیس طیبہ کی تلاش میں سرگرداں تھی جبکہ اس نے طیبہ کی بازیابی کے لیے مختلف شہروں میں چھاپے بھی مارے تھے، تاہم وہ اسلام آباد سے ہی بازیاب ہوئی، جسے بعدازاں پاکستان سوئیٹ ہوم کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کم سن ملازمہ پر ہونے والے تشدد پر ازخود نوٹس کیس کو مزید ٹرائل کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ بھیج دیا تھا۔

دوسری جانب تشدد کے تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے سیشن جج اور ان کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ چند پڑوسیوں نے مبینہ طور پر ان کے خلاف 'سازش' کی، ملزم جوڑے کے مطابق انہوں نے والدین کی غربت کو دیکھتے ہوئے بچی کو انسانی ہمدردی کی بناء پر اپنے گھر میں رکھا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 27 اپریل 2025
کارٹون : 26 اپریل 2025