سو سال بعد 'خونی آبشار' کا اسرار حل ہوگیا
براعظم انٹار کٹیکا میں بہنے والی 'خونی آبشار' کا معمہ سائنسدانوں نے آخر کار سو سال بعد حل کرلیا۔
انٹار کٹیکا کی بلڈ فال نامی یہ آبشار 106 سال پہلے ایک آسٹریلین محقق گریفتھ ٹیلر نے ویسٹ لیک بونی نامی گلیشیئر کے پاس دریافت کی تھی۔
اس وقت سے سائنسدان حیرت میں مبتلا تھے کہ اس برفانی براعظم میں ایک آبشار منجمد کیوں نہیں ہوتی اور اس کا رنگ سرخ کیوں ہے۔
پہلے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ اس آبشار کی رنگت کے پیچھے سرخ خودرو پودے چھپے ہیں مگر یہ خیال غلط ثابت ہوا۔
2003 میں یہ خیال پیش کیا گیا تھا کہ پانی کی خون جیسی رنگت کا راز آکسائیڈئز آئرن میں چھپا ہے جو پچاس لاکھ سال پہلے نمکین پانی کی جھیل میں پھنس گیا تھا۔
اب امریکا کی الاسکا یونیورسٹی اور کولوراڈو کالج نے تصدیق کی ہے کہ نہ صرف اس گلیشیئر کے نیچے ایک جھیل موجود ہے بلکہ اس کا اپنا پانی کا نظام ہے جو دس لاکھ سال سے بہہ رہا ہے۔
تحقیقی ٹیم نے پانی کے بہاﺅ کے ماخذ کا سراغ لگایا اور ان کے مطابق منفی درجہ حرارت بھی یہ آبشار اس لیے نہیں جمتی کیونکہ اس میں ایک دائمی ہائیڈرولک سسٹم کام کررہا ہے جو کہ حرارت خارج کرکے ارگرد کی برف پگھلا کر پانی کا بہاﺅ جاری رکھتا ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ اس آبشار کی انفرادیت اس کے نیچے لاکھوں برسوں سے پھنسا نمکین پانی ہے جو کہ کسی ٹائم کیپسول سے کم نہیں اور اس دیگر سیاروں میں برفانی جگہوں میں ڈرل کے بغیر زندگی کے آثار کو تلاش کرنے میں مدد مل سکے گی۔