• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

'پاکستان 5 ہزار ارب روپے تک ٹیکس وصول کر سکتا ہے'

شائع April 26, 2017

اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین قیصر احمد شیخ کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں یکساں ٹیکس کی وصولی کے حق میں نہیں ہیں، اگر بہتر اقدامات کیے جائیں تو پاکستان 5 ہزار ارب روپے تک ٹیکس وصول کر سکتا ہے۔

سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کی جانب سے منعقدہ صوبائی ٹیکس اصلاحات پر مبنی مشاورتی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے قیصر احمد شیخ نے امریکا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ امریکی شہری نیویارک سے نیو ہیمشائر خریداری کرنے کے لیے جاتے ہیں کیوںکہ نیو ہیمشائر میں کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر پورے ملک میں یکساں ٹیکس پالیسی رہی تو کوئی بھی صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سرمایہ کاری نہیں کرے گا۔

مزید پڑھیں: ٹیکس نادہندگان کے شناختی کارڈز بلاک کرنے کی سفارش

اس سے قبل اجلاس میں شرکاء کی بڑی تعداد نے دگنے ٹیکس سے بچنے کے لیے یکساں اور مربوط ٹیکس نظام کے حق میں بات کی۔

شرکاء نے زرعی ٹیکس لاگو کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ٹیکس کا سارا بوجھ کاروباری صنعت پر ڈال دیا گیا ہے اور ٹیکس دہندگان کے لیے کوئی مراعات نہیں ہیں۔

تاہم قیصر احمد شیخ نے اسے افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسان زرعی شعبہ میں لاگو ہونے والے ٹیکس سے آگاہ ہی نہیں ہیں۔

بھارت کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ زرعی شعبوں کا مارک اپ 14 فیصد ہے جبکہ کاروباری شعبے میں مارک اپ 7 فیصد ہے جس کی وجہ سے ہمارے ملک کا زرعی شعبہ ہمسایہ ممالک کے زرعی شعبوں کے ساتھ مقابلہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔

قیصر احمد شیخ نے مزید کہا کہ پاکستان میں ٹیکس کی بڑی صلاحیت موجود ہے اگر درست اقدامات کیے جائیں تو پاکستان 5 ہزار ارب روبے تک ٹیکس وصول کرسکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ٹیکس کی وصولی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کی 11 فیصد ہے جبکہ بھارت میں یہ وصولی اس کے جی ڈی پی کے 15 سے 16 فیصد تک ہے۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں پچھلے چند برسوں کے دوران ان شعبوں میں بہتری آئی ہے جن میں پراپرٹی ٹیکس شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ جائیداد کی خریداری پر لوگ ایک کثیر رقم ادا کرتے ہیں جبکہ اس جائیداد کی منتقلی کے دوران اس کی قیمت کو بہت کم دکھایا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چینی سرمایہ کاروں کو نمایاں ٹیکس رعایتیں حاصل

انہوں نے بتایا کہ گذشتہ برس بینک ٹرانزیکشن پر ٹیکس لاگو کرنے کے بعد بینک کے ذریعے کی جانے والی لین دین کے عوظ دیئے جانے والے ٹیکس کی مد میں میں حکومت کو 30 ارب روپے حاصل ہوئے، اس سے قبل یہ ٹیکس بینک ٹرانزیکشن پر موجود نہیں تھا۔

قیصر احمد شیخ نے ٹیکس آفیسر کی جانب سے بھیجے جانے والے غیر ضروری نوٹس کی تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا۔

اس سے قبل راولپنڈی اسلام آباد ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے نمائندے اعجاز حسین نے کہا کہ کاروباری برادری یکے بعد دیگرے ٹیکس کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہے۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی کمپنی کو اپنی مصنوعات کی نقل و حمل کرنی ہو تو انہیں چھ قسم کے مختلف ٹیکس ادا کرنے ہوتے ہیں جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے لاگو کیے گئے ہیں۔

اعجاز حسین کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کے علاوہ دگنا ٹیکس بھی ایک مسئلہ ہے کیونکہ ہر صوبے کا اپنا ٹیکس نظام ہے، ملک میں مربوط ٹیکس کا نظام ہونا چاہیئے اور اگر صوبوں کو اس معاملے میں اختلافات ہیں تو صارفین کو نوٹس بھیجنے کے بجائے ان معاملات کو باہمی طور پر حل کریں۔

ود ہولڈنگ ٹیکس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ود ہولڈنگ ٹیکس بھی ایک مسئلہ ہے جس کی کٹوتی صرف پاکستان میں سروسز اور اشیاء دونوں کی لین دین پر ہوتی ہے۔

چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ریاض انور کا اس امر میں کہنا تھا کہ صرف ایک ہی ٹیکس ریٹرن ہونا چاہیئے تاکہ ٹیکس دہندگان کے لیے معاملات آسان ہوجائیں، ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبوں کی ٹیکس صلاحیت کے مسائل پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: 'سعودی شہریوں سے انکم ٹیکس نہیں لیا جائے گا'

اسلام آباد چیمبر آف کامرس کے نمائندے میاں محمد رمضان نے اجلاس کے دوران کہا کہ قوم کو بہتر خدمات حاصل کرنے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس وقت ٹیکس کا بوجھ صرف کاروباری برادری پر ہے، مختلف صوبوں میں مختلف ٹیکس ہونے کی وجہ سے کاروباری برادری کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے، پورے ملک میں ایک جیسے ٹیکس ہونے چاہیئے جبکہ ٹیکس کے قانون کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں ٹیکس کی حد مقرر ہے اور ایسا ہی قانون کاروبار کے لیے اسلام آباد میں بھی لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔

ٹیلی کمیونیکیشنز کمپنی کے جنرل منیجر خالد محمود نے جنرل سیلز ٹیکس کو ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبہ میں خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ صارفین اسے مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی شکل میں دیکھتے ہیں، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دوسری جانب فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) بنا کوئی حساب کیے کروڑوں روپے کے نوٹس جاری کرتا ہے۔

اس کے برعکس ایف بی آر کے ایک اہلکار ذوالفقار حسین نے کہا کہ بورڈ ایک ہم آہنگ ٹیکس کا نظام تخلیق کرنے اور صارفین کے مفادات کی حفاظت کے لیے صوبوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔

دیگر شرکاء نے غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ماحول حوصلہ افزا بنانے کے لیے ٹیکس کی تعداد کم کرنے کی تجاویز پیش کیں، اس کے ساتھ ساتھ اپنے ٹیکس ریٹرن جمع کروانے والے ٹیکس دہندگان کو ہیلتھ انشورنس کارڈ جاری کرنے کی تجاویز بھی پیش کیں تاکہ لوگوں میں یہ تاثر جاسکے کہ حکومت ٹیکس ریٹرن جمع کرانے والوں کو سہولیات فراہم کر رہی ہے۔


یہ خبر 26 اپریل، 2017 کو ڈان اخبار مین شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024