• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

پاک-بھارت تعلقات میں بہتری کیلئے امریکی کوششوں کا خیرمقدم

شائع April 22, 2017

واشنگٹن: وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اختلافات کے حل کیلئے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کو پاکستان خوش آمدید کہے گا۔

امریکا میں ایک تھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے بین الاقوامی برادری کو یقین دہانی کرائی کہ پاکستان کے جوہری اثاثے ایسے ہی محفوظ ہیں جس طرح امریکا کے جوہری ہتھیار محفوظ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس خطے میں دنیا کی آدھی سے زائد آبادی قیام پذیر ہے اور یہ آبادی پاکستان اور بھارت کے تعلقات، خاص طور پر مسئلہ کشمیر کی وجہ سے براہ راست متاثر ہوتی ہے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ 'اس لیے اس صورت حال کو بہتر بنانے کیلئے کیے جانے والے اقدامات کو خوش آمدید کہا جائے گا'۔

انھوں نے دہرایا کہ الیکشن کے فوری بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم نواز شریف کو اپنے ٹیلی فونک رابطے میں خطے کیلئے مثبت پیغام بھیجا تھا۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے بھی پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد کی پیش کش کی تھی جسے پاکستان کی جانب سے خوش آمدید کہا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان، اقوام متحدہ کیلئے امریکی سفیر کے حالیہ بیان کو بھی سراہتا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ کسی بھی قسم کے واقعے کے رونما ہونے کے انتظار سے قبل ٹرمپ انتظامیہ جنوبی ایشیا کی دونوں ریاستوں کو ان کے درمیان موجود کشیدگی کو ختم کرنے میں مدد فراہم کرے گی۔

اسحاق ڈار کا کہنا کہ ایسے کسی بھی اقدام کو خوش آمدید کہا جائے گا۔

وفاقی وزیر خزانہ نے تسلیم کیا کہ ماضی میں امریکا اور پاکستان کے تعلقات تعطل کا شکار رہے لیکن ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں اس تعطل کو ختم کرنا چاہیے' جیسا کہ یہ تعلق دونوں کیلئے ضروری ہے۔

انھوں نے کہا کہ 'ہمیں اختلافات کو ختم کرنے کیلئے مل کر کام کرنا چاہیے، اگر کوئی غلط فہمی ہے تو اسے حل ہونا چاہیے'۔

کلبھوشن یادیو کا معاملہ

اس موقع پر پاکستان کے وفاقی وزیر برائے خزانہ نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی نہ دینے کے اسلام آباد کے فیصلے کا دفاع کیا اور کہا کہ 'یہ ایک قانون ہے اور ہر کوئی اس سے واقف ہے کہ اگر کسی پر غداری یا جاسوسی کا الزام ہو تو اسے قونصلر رسائی فراہم نہیں کی جاتی'۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ تاہم، کلبھوشن یادیو کو قانونی وکیل فراہم کیا گیا ہے اور ایک قیدی کو فراہم کی جانے والی دیگر تمام سہولیات بھی فراہم کی گئیں ہیں۔

یاد رہے کہ کلبھوشن یادیو کو پاکستان کے فوجی ٹریبونل نے جاسوسی اور دہشتگردی کے الزام میں سزائے موت سنائی تھی۔

جوہری ہتھیاروں کا تحفظ

ایک سوال کے جواب میں اسحاق ڈار نے امریکی میڈیا میں نشر ہونے والے سابق افغان انٹیلی جنس چیف کے دعوے کو مسترد کیا جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے جوہری اثاثے محفوظ نہیں ہیں اور وہ بلا آخر عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگ جائیں گے۔

یاد رہے کہ امریکی جریدے میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں سابق افغان عہدیدار نے امریکا اور دیگر اہم طاقتوں پر زور دیا تھا کہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں پر قبضہ کرکے اسے جوہری ہتھیاروں سے پاک کردیا جائے۔

اس کے جواب میں وفاقی وزیر اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کا کمانڈ اینڈ کنٹرول کا نظام اور اس کی جوہری ہتھیاروں کی سیکیورٹی کا انتظام انتہائی مضبوط ہیں اور بین الاقوامی معیار کے مطابق ہیں، پاکستان میں جوہری ہتھیاروں کی سیکیورٹی سے متعلق ایک بھی واقعہ پیش نہیں آیا ہے'۔

قومی (نیوکلیئر) کمانڈ اتھارٹی کے رکن اسحاق ڈار نے بتایا کہ جوہری تحفظ اور سیکیورٹی کے حوالے سے پاکستان بین الاقوامی برادری اور آئی اے ای اے سے رابطے میں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سابق افغان انٹیلی جنس چیف کے دعوے 'گمراہ کن اور بدنیتی پر مبنی ہیں اور دنیا کو ایسے دعوؤں کو نظر انداز کردینا چاہیے'۔

اسحاق ڈار نے افغان حکام کے اس دعوے کو بھی مسترد کیا کہ ان کے پاس ایک خط کی کاپی ہے جس میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (پی اے ای سی) نے پشاور میں موجود حکام کو ملک میں جوہری اثاثوں کی سیکیورٹی کے حوالے سے اپنی تشویش سے آگاہ کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پی اے ای سی کی جانب سے نیشنل کمانڈ اتھارتی کو خط لکھنے کا کوئی مطلب نہیں نکلتا، یہ ایک ممکنہ سی چیز معلوم ہوتی ہے، اگر اس قسم کی کوئی صورت حال بھی ہوتو اس کیلئے تحریری طور پر رابطہ نہیں کیا جاتا'۔

ایک اور سوال کے جواب میں پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں علاقائی روابط چاہتا ہے جیسا کہ یہ تمام اقوام کیلئے سرمایہ کاری اور تعمیر کی حوصلہ افزائی کرے گا۔

یہ رپورٹ 22 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024